بے خودی پر اشعار
بے خودی شعور کی حالت
سے نکل جانے کی ایک کیفیت ہے ۔ ایک عاشق بے خودی کو کس طرح جیتا ہے اور اس کے ذریعے وہ عشق کے کن کن مقامات کی سیر کرتا ہے اس کا دلچسپ بیان ان اشعار میں ہے ۔ اس طرح کے شعروں کی ایک خاص جہت یہ بھی ہے کہ ان کے ذریعے کلاسیکی عاشق کی شخصیت کی پرتیں کھلتی ہیں ۔
اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں
اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں
-
موضوعات : لَواور 3 مزید
ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے
-
موضوعات : جگجیت سنگھاور 7 مزید
یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں
تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں
چلے تو پاؤں کے نیچے کچل گئی کوئی شے
نشے کی جھونک میں دیکھا نہیں کہ دنیا ہے
-
موضوعات : دنیااور 2 مزید
بے خودی لے گئی کہاں ہم کو
دیر سے انتظار ہے اپنا
اتنی پی جائے کہ مٹ جائے میں اور تو کی تمیز
یعنی یہ ہوش کی دیوار گرا دی جائے
-
موضوعات : شراباور 2 مزید
اب ان حدود میں لایا ہے انتظار مجھے
وہ آ بھی جائیں تو آئے نہ اعتبار مجھے
مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیئے
بے خودی میں لے لیا بوسہ خطا کیجے معاف
یہ دل بیتاب کی ساری خطا تھی میں نہ تھا
-
موضوعات : بوسہاور 1 مزید
جس میں ہو یاد بھی تری شامل
ہائے اس بے خودی کو کیا کہیے
کمال عشق تو دیکھو وہ آ گئے لیکن
وہی ہے شوق وہی انتظار باقی ہے
اللہ رے بے خودی کہ ترے پاس بیٹھ کر
تیرا ہی انتظار کیا ہے کبھی کبھی
-
موضوعات : انتظاراور 1 مزید
ترا وصل ہے مجھے بے خودی ترا ہجر ہے مجھے آگہی
ترا وصل مجھ کو فراق ہے ترا ہجر مجھ کو وصال ہے
-
موضوعات : آگہیاور 2 مزید
دن رات مے کدے میں گزرتی تھی زندگی
اخترؔ وہ بے خودی کے زمانے کدھر گئے
-
موضوعات : زندگیاور 1 مزید
عالم سے بے خبر بھی ہوں عالم میں بھی ہوں میں
ساقی نے اس مقام کو آساں بنا دیا
عمر جو بے خودی میں گزری ہے
بس وہی آگہی میں گزری ہے
نہ تو ہوش سے تعارف نہ جنوں سے آشنائی
یہ کہاں پہنچ گئے ہیں تری بزم سے نکل کے
یہاں کوئی نہ جی سکا نہ جی سکے گا ہوش میں
مٹا دے نام ہوش کا شراب لا شراب لا
مئے حیات میں شامل ہے تلخیٔ دوراں
جبھی تو پی کے ترستے ہیں بے خودی کے لئے
اتنی پی ہے کہ بعد توبہ بھی
بے پیے بے خودی سی رہتی ہے
-
موضوعات : توبہاور 2 مزید
کتنا مشکل ہے خود بخود رونا
بے خودی سے رہا کرے کوئی
میرے دل و دماغ پہ چھائے ہوئے ہو تم
ذرے کو آفتاب بنائے ہوئے ہو تم
شہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباس برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی
بے خودی میں ہم تو تیرا در سمجھ کر جھک گئے
اب خدا معلوم کعبہ تھا کہ وہ بت خانہ تھا
بے خودی نے کر دیا جذبات دل سے بے نیاز
اب ترا ملنا نہ ملنا سب برابر ہو گیا
اب میں حدود ہوش و خرد سے گزر گیا
ٹھکراؤ چاہے پیار کرو میں نشے میں ہوں
خواب میں نام ترا لے کے پکار اٹھتا ہوں
بے خودی میں بھی مجھے یاد تری یاد کی ہے
-
موضوعات : خواباور 1 مزید
اے بے خودی دل مجھے یہ بھی خبر نہیں
کس دن بہار آئی میں دیوانہ کب ہوا
اللہ رے بے خودی کہ چلا جا رہا ہوں میں
منزل کو دیکھتا ہوا کچھ سوچتا ہوا
سر پائے خم پہ چاہیئے ہنگام بے خودی
رو سوئے قبلہ وقت مناجات چاہیئے
اے بے خودی سلام تجھے تیرا شکریہ
دنیا بھی مست مست ہے عقبیٰ بھی مست مست
کہہ دیں تم سے کون ہیں کیا ہیں کہاں رہتے ہیں ہم
بے خودوں کو اپنے جب تم ہوش میں آنے تو دو
اللہ رے بے خودی کہ ترے گھر کے آس پاس
ہر در پہ دی صدا ترے در کے خیال میں
نیاز بے خودی بہتر نماز خود نمائی سیں
نہ کر ہم پختہ مغزوں سیں خیال خام اے واعظ
چھوڑ کر کوچۂ مے خانہ طرف مسجد کے
میں تو دیوانہ نہیں ہوں جو چلوں ہوش کی راہ
گئی بہار مگر اپنی بے خودی ہے وہی
سمجھ رہا ہوں کہ اب تک بہار باقی ہے
اے زندگی جنوں نہ سہی بے خودی سہی
تو کچھ بھی اپنی عقل سے پاگل اٹھا تو لا
وفور بے خودی میں رکھ دیا سر ان کے قدموں پر
وہ کہتے ہی رہے واصفؔ یہ محفل ہے یہ محفل ہے
وہ بے خودی تھی محبت کی بے رخی تو نہ تھی
پہ اس کو ترک تعلق کو اک بہانہ ہوا
ہاں کیف بے خودی کی وہ ساعت بھی یاد ہے
محسوس کر رہا تھا خدا ہو گیا ہوں میں
پاس آداب وفا تھا کہ شکستہ پائی
بے خودی میں بھی نہ ہم حد سے گزرنے پائے
تیرے خیال میں کبھی اس طرح کھو گئے
تیرا خیال بھی ہمیں اکثر نہیں رہا
جز بے خودی گزر نہیں کوئے حبیب میں
گم ہو گیا جو میں تو ملا راستہ مجھے
پا بہ گل بے خودیٔ شوق سے میں رہتا تھا
کوچۂ یار میں حالت مری دیوار کی تھی
میرے اور یار کے پردہ تو نہیں کچھ لیکن
بے خودی بیچ میں دیوار ہوا چاہتی ہے
تری یاد میں تھی وہ بے خودی کہ نہ فکر نامہ بری رہی
مری وہ نگارش شوق بھی کہیں طاق ہی پہ دھری رہی