محبت پر اشعار

محبت پر یہ شاعری آپ

کے لیے ایک سبق کی طرح ہے، آپ اس سے محبت میں جینے کے آداب بھی سیکھیں گے اور ہجر و وصال کو گزارنے کے طریقے بھی۔ یہ پہلا ایسا خوبصورت مجموعہ ہے جس میں محبت کے ہر رنگ، ہر کیفیت اور ہر احساس کو قید کرنے والے اشعار کو اکٹھا کر دیا گیا ہے۔ آپ انہیں پڑھیے اور محبت کرنے والوں کے درمیان شئیر کیجیے۔

اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو

نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے

بشیر بدر

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا

راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

فیض احمد فیض

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ

آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ

احمد فراز

اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو

دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے

راحت اندوری

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

مرزا غالب

اور کیا دیکھنے کو باقی ہے

آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا

فیض احمد فیض

ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے

عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے

ندا فاضلی

نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی

بڑی آرزو تھی ملاقات کی

بشیر بدر

عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے

اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے

عبید اللہ علیم

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے

ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے

حسرتؔ موہانی

کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی

یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا

بشیر بدر

عشق نازک مزاج ہے بے حد

عقل کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا

اکبر الہ آبادی

ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم

کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی

احمد فراز

زندگی کس طرح بسر ہوگی

دل نہیں لگ رہا محبت میں

جون ایلیا

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے

وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے

فیض احمد فیض

کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم

تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ

احمد فراز

وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا

مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا

پروین شاکر

آپ کے بعد ہر گھڑی ہم نے

آپ کے ساتھ ہی گزاری ہے

گلزار

انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ

مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

مصطفی زیدی

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا

جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا

شکیل بدایونی

کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں

عشق توفیق ہے گناہ نہیں

فراق گورکھپوری

گلا بھی تجھ سے بہت ہے مگر محبت بھی

وہ بات اپنی جگہ ہے یہ بات اپنی جگہ

باصر سلطان کاظمی

دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں

کتنا حسیں گناہ کئے جا رہا ہوں میں

جگر مراد آبادی

ساری دنیا کے غم ہمارے ہیں

اور ستم یہ کہ ہم تمہارے ہیں

جون ایلیا

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا

وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

ناصر کاظمی

اب جدائی کے سفر کو مرے آسان کرو

تم مجھے خواب میں آ کر نہ پریشان کرو

منور رانا

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

علامہ اقبال

تم کو آتا ہے پیار پر غصہ

مجھ کو غصے پہ پیار آتا ہے

امیر مینائی

محبتوں میں دکھاوے کی دوستی نہ ملا

اگر گلے نہیں ملتا تو ہاتھ بھی نہ ملا

بشیر بدر

کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام

مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

غلام محمد قاصر

عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ

کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے

مرزا غالب

ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے

ابھی کچھ بے قراری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

قتیل شفائی

تیرا ملنا خوشی کی بات سہی

تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں

ساحر لدھیانوی

ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کو

کیا ہوا آج یہ کس بات پہ رونا آیا

ساحر لدھیانوی

تم محبت کو کھیل کہتے ہو

ہم نے برباد زندگی کر لی

بشیر بدر

انجام وفا یہ ہے جس نے بھی محبت کی

مرنے کی دعا مانگی جینے کی سزا پائی

نشور واحدی

مجھے اب تم سے ڈر لگنے لگا ہے

تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی کیا

جون ایلیا

آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد

آج کا دن گزر نہ جائے کہیں

ناصر کاظمی

ہم سے کیا ہو سکا محبت میں

خیر تم نے تو بے وفائی کی

فراق گورکھپوری

اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانا ہے

سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے

جگر مراد آبادی

نہ پوچھو حسن کی تعریف ہم سے

محبت جس سے ہو بس وہ حسیں ہے

عادل فاروقی

میں تو غزل سنا کے اکیلا کھڑا رہا

سب اپنے اپنے چاہنے والوں میں کھو گئے

کرشن بہاری نور

اتنی ملتی ہے مری غزلوں سے صورت تیری

لوگ تجھ کو مرا محبوب سمجھتے ہوں گے

بشیر بدر

خدا کی اتنی بڑی کائنات میں میں نے

بس ایک شخص کو مانگا مجھے وہی نہ ملا

بشیر بدر

تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں

جان بہت شرمندہ ہیں

افتخار عارف

کیا کہا عشق جاودانی ہے!

آخری بار مل رہی ہو کیا

جون ایلیا

جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں

دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں

کیفی اعظمی

بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدتوں میں ہم

قسطوں میں خودکشی کا مزا ہم سے پوچھئے

خمارؔ بارہ بنکوی

ملنا تھا اتفاق بچھڑنا نصیب تھا

وہ اتنی دور ہو گیا جتنا قریب تھا

انجم رہبر

اس کو جدا ہوئے بھی زمانہ بہت ہوا

اب کیا کہیں یہ قصہ پرانا بہت ہوا

احمد فراز

Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi

GET YOUR FREE PASS
بولیے