وفا پر اشعار
وفا پر شاعری بھی زیادہ
تر بے وفائی کی ہی صورتوں کو موضوع بناتی ہے ۔ وفادارعاشق کے علاوہ اور ہے کون ۔ اور یہ وفادار کردار ہر طرف سے بے وفائی کا نشانہ بنتا ہے ۔ یہ شاعری ہم کو وفاداری کی ترغیب بھی دیتی ہے اور بے وفائی کے دکھ جھیلنے والوں کے زخمی احساسات سے واقف بھی کراتی ہے ۔
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
-
موضوعات : ترغیبیاور 1 مزید
وفا کریں گے نباہیں گے بات مانیں گے
تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا
-
موضوعات : مشہور اشعاراور 2 مزید
انجام وفا یہ ہے جس نے بھی محبت کی
مرنے کی دعا مانگی جینے کی سزا پائی
-
موضوعات : انجاماور 2 مزید
الفت میں برابر ہے وفا ہو کہ جفا ہو
ہر بات میں لذت ہے اگر دل میں مزا ہو
وفا اخلاص قربانی محبت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم
بے وفائی پہ تیری جی ہے فدا
قہر ہوتا جو باوفا ہوتا
وفا جس سے کی بے وفا ہو گیا
جسے بت بنایا خدا ہو گیا
-
موضوعات : بتاور 1 مزید
کیوں پشیماں ہو اگر وعدہ وفا ہو نہ سکا
کہیں وعدے بھی نبھانے کے لئے ہوتے ہیں
ایک عورت سے وفا کرنے کا یہ تحفہ ملا
جانے کتنی عورتوں کی بد دعائیں ساتھ ہیں
آگہی کرب وفا صبر تمنا احساس
میرے ہی سینے میں اترے ہیں یہ خنجر سارے
-
موضوعات : احساساور 3 مزید
دشمنوں کی جفا کا خوف نہیں
دوستوں کی وفا سے ڈرتے ہیں
-
موضوعات : دشمناور 1 مزید
وفاؤں کے بدلے جفا کر رہے ہیں
میں کیا کر رہا ہوں وہ کیا کر رہے ہیں
دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد
-
موضوعات : عشقاور 4 مزید
اڑ گئی یوں وفا زمانے سے
کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں
وفا کی خیر مناتا ہوں بے وفائی میں بھی
میں اس کی قید میں ہوں قید سے رہائی میں بھی
مجھ سے کیا ہو سکا وفا کے سوا
مجھ کو ملتا بھی کیا سزا کے سوا
میرے بعد وفا کا دھوکا اور کسی سے مت کرنا
گالی دے گی دنیا تجھ کو سر میرا جھک جائے گا
-
موضوعات : بے وفائیاور 1 مزید
کون اٹھائے گا تمہاری یہ جفا میرے بعد
یاد آئے گی بہت میری وفا میرے بعد
وہ امید کیا جس کی ہو انتہا
وہ وعدہ نہیں جو وفا ہو گیا
-
موضوعات : امیداور 1 مزید
امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا
-
موضوعات : امیداور 1 مزید
یہ وفا کی سخت راہیں یہ تمہارے پاؤں نازک
نہ لو انتقام مجھ سے مرے ساتھ ساتھ چل کے
-
موضوعات : عشقاور 1 مزید
وہ کہتے ہیں ہر چوٹ پر مسکراؤ
وفا یاد رکھو ستم بھول جاؤ
کام آ سکیں نہ اپنی وفائیں تو کیا کریں
اس بے وفا کو بھول نہ جائیں تو کیا کریں
ہم نے بے انتہا وفا کر کے
بے وفاؤں سے انتقام لیا
عشق پابند وفا ہے نہ کہ پابند رسوم
سر جھکانے کو نہیں کہتے ہیں سجدہ کرنا
-
موضوعات : عشقاور 1 مزید
برا مت مان اتنا حوصلہ اچھا نہیں لگتا
یہ اٹھتے بیٹھتے ذکر وفا اچھا نہیں لگتا
یہ کیا کہ تم نے جفا سے بھی ہاتھ کھینچ لیا
مری وفاؤں کا کچھ تو صلہ دیا ہوتا
وفا نظر نہیں آتی کہیں زمانے میں
وفا کا ذکر کتابوں میں دیکھ لیتے ہیں
تری وفا میں ملی آرزوئے موت مجھے
جو موت مل گئی ہوتی تو کوئی بات بھی تھی
-
موضوعات : آرزواور 1 مزید
مجھے معلوم ہے اہل وفا پر کیا گزرتی ہے
سمجھ کر سوچ کر تجھ سے محبت کر رہا ہوں میں
-
موضوعات : عشقاور 1 مزید
کبھی کی تھی جو اب وفا کیجئے گا
مجھے پوچھ کر آپ کیا کیجئے گا
بہت مشکل زمانوں میں بھی ہم اہل محبت
وفا پر عشق کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں
-
موضوعات : عشقاور 1 مزید
جاؤ بھی کیا کرو گے مہر و وفا
بارہا آزما کے دیکھ لیا
کیا مصلحت شناس تھا وہ آدمی قتیلؔ
مجبوریوں کا جس نے وفا نام رکھ دیا
تجھ سے وفا نہ کی تو کسی سے وفا نہ کی
کس طرح انتقام لیا اپنے آپ سے
جو طلب پہ عہد وفا کیا تو وہ آبروئے وفا گئی
سر عام جب ہوئے مدعی تو ثواب صدق و وفا گیا
یا وفا ہی نہ تھی زمانہ میں
یا مگر دوستوں نے کی ہی نہیں
کسی طرح جو نہ اس بت نے اعتبار کیا
مری وفا نے مجھے خوب شرمسار کیا
دوستی بندگی وفا و خلوص
ہم یہ شمع جلانا بھول گئے
-
موضوعات : بندگیاور 1 مزید
وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لئے
وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کے لئے
امید ان سے وفا کی تو خیر کیا کیجے
جفا بھی کرتے نہیں وہ کبھی جفا کی طرح
فریب کھانے کو پیشہ بنا لیا ہم نے
جب ایک بار وفا کا فریب کھا بیٹھے
وفا کے شہر میں اب لوگ جھوٹ بولتے ہیں
تو آ رہا ہے مگر سچ کو مانتا ہے تو آ
اس بے وفا سے کر کے وفا مر مٹا رضاؔ
اک قصۂ طویل کا یہ اختصار ہے
جو بات دل میں تھی اس سے نہیں کہی ہم نے
وفا کے نام سے وہ بھی فریب کھا جاتا
تم جفا پر بھی تو نہیں قائم
ہم وفا عمر بھر کریں کیوں کر
کیا کہے گا کبھی ملنے بھی اگر آئے گا وہ
اب وفاداری کی قسمیں تو نہیں کھائے گا وہ
چاہی تھی دل نے تجھ سے وفا کم بہت ہی کم
شاید اسی لیے ہے گلا کم بہت ہی کم