فریب پر اشعار
معشوق کی ایک صفت اس
کا فریبی ہونا بھی ہے ۔ وہ ہر معاملے میں دھوکے باز ثابت ہوتا ہے ۔ وصل کا وعدہ کرتا ہے لیکن کبھی وفا نہیں کرتا ہے ۔ یہاں معشوق کے فریب کی مختلف شکلوں کو موضوع بنانے والے کچھ شعروں کا انتخاب ہم پیش کر رہے ہیں انہیں پڑھئے اور معشوق کی ان چالاکیوں سے لطف اٹھائیے ۔
ترے وعدوں پہ کہاں تک مرا دل فریب کھائے
کوئی ایسا کر بہانہ مری آس ٹوٹ جائے
تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں
ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آ جاتے ہیں
جو ان معصوم آنکھوں نے دیے تھے
وہ دھوکے آج تک میں کھا رہا ہوں
-
موضوعات : آنکھاور 1 مزید
کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی
یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے سب مگر پھر بھی
-
موضوعات : حسناور 2 مزید
مدت ہوئی اک شخص نے دل توڑ دیا تھا
اس واسطے اپنوں سے محبت نہیں کرتے
آدمی جان کے کھاتا ہے محبت میں فریب
خود فریبی ہی محبت کا صلہ ہو جیسے
ہم اسے یاد بہت آئیں گے
جب اسے بھی کوئی ٹھکرائے گا
-
موضوعات : بے وفائیاور 1 مزید
عقل کہتی ہے دوبارہ آزمانا جہل ہے
دل یہ کہتا ہے فریب دوست کھاتے جائیے
-
موضوعات : دلاور 3 مزید
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
-
موضوعات : ضرب المثلاور 1 مزید
اک برس بھی ابھی نہیں گزرا
کتنی جلدی بدل گئے چہرے
دھوکا تھا نگاہوں کا مگر خوب تھا دھوکا
مجھ کو تری نظروں میں محبت نظر آئی
احباب کو دے رہا ہوں دھوکا
چہرے پہ خوشی سجا رہا ہوں
-
موضوعات : احباباور 1 مزید
سمجھا لیا فریب سے مجھ کو تو آپ نے
دل سے تو پوچھ لیجیے کیوں بے قرار ہے
میرے بعد وفا کا دھوکا اور کسی سے مت کرنا
گالی دے گی دنیا تجھ کو سر میرا جھک جائے گا
-
موضوعات : بے وفائیاور 1 مزید
وفاؤں کے بدلے جفا کر رہے ہیں
میں کیا کر رہا ہوں وہ کیا کر رہے ہیں
یار میں اتنا بھوکا ہوں
دھوکا بھی کھا لیتا ہوں
اک سفر میں کوئی دو بار نہیں لٹ سکتا
اب دوبارہ تری چاہت نہیں کی جا سکتی
-
موضوعات : عشقاور 1 مزید
ہر چند اعتبار میں دھوکے بھی ہیں مگر
یہ تو نہیں کسی پہ بھروسا کیا نہ جائے
-
موضوع : بھروسہ
کس نے وفا کے نام پہ دھوکا دیا مجھے
کس سے کہوں کہ میرا گنہ گار کون ہے
جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا جن کے لیے بدنام ہوئے
آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں
ایسے ملا ہے ہم سے شناسا کبھی نہ تھا
وہ یوں بدل ہی جائے گا سوچا کبھی نہ تھا
دکھائی دیتا ہے جو کچھ کہیں وہ خواب نہ ہو
جو سن رہی ہوں وہ دھوکا نہ ہو سماعت کا
-
موضوع : خواب
گن رہا ہوں حرف ان کے عہد کے
مجھ کو دھوکا دے رہی ہے یاد کیا
ہاتھ چھڑا کر جانے والے
میں تجھ کو اپنا سمجھا تھا
خالدؔ میں بات بات پہ کہتا تھا جس کو جان
وہ شخص آخرش مجھے بے جان کر گیا
جو بات دل میں تھی اس سے نہیں کہی ہم نے
وفا کے نام سے وہ بھی فریب کھا جاتا
-
موضوع : وفا
چمن کے رنگ و بو نے اس قدر دھوکا دیا مجھ کو
کہ میں نے شوق گل بوسی میں کانٹوں پر زباں رکھ دی
مجھی کو پردۂ ہستی میں دے رہا ہے فریب
وہ حسن جس کو کیا جلوہ آفریں میں نے
-
موضوع : حسن
مجھے اب آپ نے چھوڑا کہ میں نے
ادھر تو دیکھیے کس نے دغا کی
مرا وجود حقیقت مرا عدم دھوکا
فنا کی شکل میں سرچشمۂ بقا ہوں میں
-
موضوع : وجود
عجب نہیں کہ یہ دریا نظر کا دھوکا ہو
عجب نہیں کہ کوئی راستہ نکل آئے
-
موضوعات : دریااور 1 مزید
یہ بھی اک دھوکا تھا نیرنگ طلسم عقل کا
اپنی ہستی پر بھی ہستی کا ہوا دھوکا مجھے