علم پر اشعار
علم کو موضوع بنانے والے
جن شعروں کا انتخاب یہاں پیش کیا جارہا ہے اس سے زندگی میں علم کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ ہوتا ہے۔اس کے علاوہ کچھ ایسے پہلو بھی ان شعروں میں موجود ہیں جو علم کے موضوع کے سیاق میں بالکل نئے اوراچھوتے ہیں ۔ علم کے ذریعے پیدا ہونے والی منفیت پر عموما کم غور کیا جاتا ۔ یہ شاعری علم کے ڈسکورس کو ایک نئے ڈھنگ سے دیکھتی ہے اور ترتیب دیتی ہے ۔
عقل میں جو گھر گیا لا انتہا کیوں کر ہوا
جو سما میں آ گیا پھر وہ خدا کیوں کر ہوا
عقل کہتی ہے دوبارہ آزمانا جہل ہے
دل یہ کہتا ہے فریب دوست کھاتے جائیے
-
موضوعات : دلاور 3 مزید
تھوڑی سی عقل لائے تھے ہم بھی مگر عدمؔ
دنیا کے حادثات نے دیوانہ کر دیا
اجالا علم کا پھیلا تو ہے چاروں طرف یارو
بصیرت آدمی کی کچھ مگر کم ہوتی جاتی ہے
-
موضوع : آگہی
جان کا صرفہ ہو تو ہو لیکن
صرف کرنے سے علم بڑھتا ہے
علم کی ابتدا ہے ہنگامہ
علم کی انتہا ہے خاموشی
جنوں کو ہوش کہاں اہتمام غارت کا
فساد جو بھی جہاں میں ہوا خرد سے ہوا
ادب تعلیم کا جوہر ہے زیور ہے جوانی کا
وہی شاگرد ہیں جو خدمت استاد کرتے ہیں
-
موضوع : استاد
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
-
موضوع : مذہب
ابتدا یہ تھی کہ میں تھا اور دعویٰ علم کا
انتہا یہ ہے کہ اس دعوے پہ شرمایا بہت
وہ کھڑا ہے ایک باب علم کی دہلیز پر
میں یہ کہتا ہوں اسے اس خوف میں داخل نہ ہو
لفظ و منظر میں معانی کو ٹٹولا نہ کرو
ہوش والے ہو تو ہر بات کو سمجھا نہ کرو
علم میں بھی سرور ہے لیکن
یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں
حد سے بڑھے جو علم تو ہے جہل دوستو
سب کچھ جو جانتے ہیں وہ کچھ جانتے نہیں
یہ علم کا سودا یہ رسالے یہ کتابیں
اک شخص کی یادوں کو بھلانے کے لیے ہیں
-
موضوعات : کتاباور 1 مزید
مرے قبیلے میں تعلیم کا رواج نہ تھا
مرے بزرگ مگر تختیاں بناتے تھے
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
یہی جانا کہ کچھ نہ جانا ہائے
سو بھی اک عمر میں ہوا معلوم
آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے
کتنا طوطے کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا