Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انسان پر اشعار

شاعری میں انسان کے طور

طریقوں ، اس کے اخلاق وعادات ، اس کی انسانی کمزوریوں اور قوتوں اور اچھے برے رویوں کو کثرت سے موضوع بنایا گیا ہے ۔ شاعری کا یہ حصہ انسانی فطرت کے ان باریک پہلوؤں کو بھی موضوع بناتا ہے جو عام زندگی میں نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں ۔ ہمارے اس انتخاب میں موجود انسان کی یہ کہانی بہت رنگارنگ اور دلچسپ ہے ساتھ ہی اس کے باطن کو روشن کرنے والی ہے ۔

ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی

جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا

ندا فاضلی

سامنے ہے جو اسے لوگ برا کہتے ہیں

جس کو دیکھا ہی نہیں اس کو خدا کہتے ہیں

سدرشن فاکر

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

مرزا غالب

بستی میں اپنی ہندو مسلماں جو بس گئے

انساں کی شکل دیکھنے کو ہم ترس گئے

کیفی اعظمی

خود کو بکھرتے دیکھتے ہیں کچھ کر نہیں پاتے ہیں

پھر بھی لوگ خداؤں جیسی باتیں کرتے ہیں

افتخار عارف

اسی لئے تو یہاں اب بھی اجنبی ہوں میں

تمام لوگ فرشتے ہیں آدمی ہوں میں

بشیر بدر

کوئی ہندو کوئی مسلم کوئی عیسائی ہے

سب نے انسان نہ بننے کی قسم کھائی ہے

ندا فاضلی

گھروں پہ نام تھے ناموں کے ساتھ عہدے تھے

بہت تلاش کیا کوئی آدمی نہ ملا

بشیر بدر

اس کے دشمن ہیں بہت آدمی اچھا ہوگا

وہ بھی میری ہی طرح شہر میں تنہا ہوگا

ندا فاضلی

برا برے کے علاوہ بھلا بھی ہوتا ہے

ہر آدمی میں کوئی دوسرا بھی ہوتا ہے

انور شعور

فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا

مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

الطاف حسین حالی

سایہ ہے کم کھجور کے اونچے درخت کا

امید باندھئے نہ بڑے آدمی کے ساتھ

کیف بھوپالی

میری رسوائی کے اسباب ہیں میرے اندر

آدمی ہوں سو بہت خواب ہیں میرے اندر

اسعد بدایونی

آدمی آدمی سے ملتا ہے

دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

جگر مراد آبادی

ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانئے گا وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا

جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا

بہادر شاہ ظفر

مری زبان کے موسم بدلتے رہتے ہیں

میں آدمی ہوں مرا اعتبار مت کرنا

عاصم واسطی

اے آسمان تیرے خدا کا نہیں ہے خوف

ڈرتے ہیں اے زمین ترے آدمی سے ہم

نامعلوم

گرجا میں مندروں میں اذانوں میں بٹ گیا

ہوتے ہی صبح آدمی خانوں میں بٹ گیا

ندا فاضلی

سب سے پر امن واقعہ یہ ہے

آدمی آدمی کو بھول گیا

جون ایلیا

آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے

کتنا طوطے کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا

شیخ ابراہیم ذوقؔ

جانور آدمی فرشتہ خدا

آدمی کی ہیں سیکڑوں قسمیں

الطاف حسین حالی

بھیڑ تنہائیوں کا میلا ہے

آدمی آدمی اکیلا ہے

صبا اکبرآبادی

اس دور میں انسان کا چہرہ نہیں ملتا

کب سے میں نقابوں کی تہیں کھول رہا ہوں

مغیث الدین فریدی

ہزار چہرے ہیں موجود آدمی غائب

یہ کس خرابے میں دنیا نے لا کے چھوڑ دیا

شہزاد احمد

پھول کر لے نباہ کانٹوں سے

آدمی ہی نہ آدمی سے ملے

خمار بارہ بنکوی

دیوتاؤں کا خدا سے ہوگا کام

آدمی کو آدمی درکار ہے

فراق گورکھپوری

جس کی ادا ادا پہ ہو انسانیت کو ناز

مل جائے کاش ایسا بشر ڈھونڈتے ہیں ہم

عاجز ماتوی

فرشتہ ہے تو تقدس تجھے مبارک ہو

ہم آدمی ہیں تو عیب و ہنر بھی رکھتے ہیں

دل ایوبی

آدمی کے پاس سب کچھ ہے مگر

ایک تنہا آدمیت ہی نہیں

جگر مراد آبادی

آدمی کا آدمی ہر حال میں ہمدرد ہو

اک توجہ چاہئے انساں کو انساں کی طرف

حفیظ جونپوری

وہ جنگلوں میں درختوں پہ کودتے پھرنا

برا بہت تھا مگر آج سے تو بہتر تھا

محمد علوی

زمیں نے خون اگلا آسماں نے آگ برسائی

جب انسانوں کے دل بدلے تو انسانوں پہ کیا گزری

ساحر لدھیانوی

آدمی کیا وہ نہ سمجھے جو سخن کی قدر کو

نطق نے حیواں سے مشت خاک کو انساں کیا

حیدر علی آتش

دیوتا بننے کی حسرت میں معلق ہو گئے

اب ذرا نیچے اتریے آدمی بن جائیے

سلیم احمد

کفر و اسلام کی کچھ قید نہیں اے آتشؔ

شیخ ہو یا کہ برہمن ہو پر انساں ہووے

حیدر علی آتش

انسان کی بلندی و پستی کو دیکھ کر

انساں کہاں کھڑا ہے ہمیں سوچنا پڑا

حبیب حیدرآبادی

نہ تو میں حور کا مفتوں نہ پری کا عاشق

خاک کے پتلے کا ہے خاک کا پتلا عاشق

پیر شیر محمد عاجز

کیا ترے شہر کے انسان ہیں پتھر کی طرح

کوئی نغمہ کوئی پائل کوئی جھنکار نہیں

کاملؔ بہزادی

بنایا اے ظفرؔ خالق نے کب انسان سے بہتر

ملک کو دیو کو جن کو پری کو حور و غلماں کو

بہادر شاہ ظفر

روپ رنگ ملتا ہے خد و خال ملتے ہیں

آدمی نہیں ملتا آدمی کے پیکر میں

خوشبیر سنگھ شادؔ

بہت ہیں سجدہ گاہیں پر در جاناں نہیں ملتا

ہزاروں دیوتا ہیں ہر طرف انساں نہیں ملتا

خالد حسن قادری

ادھر تیری مشیت ہے ادھر حکمت رسولوں کی

الٰہی آدمی کے باب میں کیا حکم ہوتا ہے

جوش ملیح آبادی

آخر انسان ہوں پتھر کا تو رکھتا نہیں دل

اے بتو اتنا ستاؤ نہ خدارا مجھ کو

اسد علی خان قلق

آدمی سے آدمی کی جب نہ حاجت ہو روا

کیوں خدا ہی کی کرے اتنی نہ پھر یاد آدمی

مصحفی غلام ہمدانی

اہل معنی جز نہ بوجھے گا کوئی اس رمز کو

ہم نے پایا ہے خدا کو صورت انساں کے بیچ

شیخ ظہور الدین حاتم

اے شیخ آدمی کے بھی درجے ہیں مختلف

انسان ہیں ضرور مگر واجبی سے آپ

بیخود دہلوی

غیب کا ایسا پرندہ ہے زمیں پر انساں

آسمانوں کو جو شہ پر پہ اٹھائے ہوئے ہے

خورشید اکبر

بنا رہا ہوں میں فہرست چھوٹے لوگوں کی

ملال یہ کہ بڑے نام اس میں آتے ہیں

اعجاز توکل

عالم کے مرقع کو کیا سیر میں لیکن

اس میں بھی کوئی صورت انسان نہ نکلی

مصحفی غلام ہمدانی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے