انسان پر اشعار
شاعری میں انسان کے طور
طریقوں ، اس کے اخلاق وعادات ، اس کی انسانی کمزوریوں اور قوتوں اور اچھے برے رویوں کو کثرت سے موضوع بنایا گیا ہے ۔ شاعری کا یہ حصہ انسانی فطرت کے ان باریک پہلوؤں کو بھی موضوع بناتا ہے جو عام زندگی میں نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں ۔ ہمارے اس انتخاب میں موجود انسان کی یہ کہانی بہت رنگارنگ اور دلچسپ ہے ساتھ ہی اس کے باطن کو روشن کرنے والی ہے ۔
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
-
موضوعات : آدمیاور 3 مزید
سامنے ہے جو اسے لوگ برا کہتے ہیں
جس کو دیکھا ہی نہیں اس کو خدا کہتے ہیں
-
موضوع : خدا
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
خود کو بکھرتے دیکھتے ہیں کچھ کر نہیں پاتے ہیں
پھر بھی لوگ خداؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
بستی میں اپنی ہندو مسلماں جو بس گئے
انساں کی شکل دیکھنے کو ہم ترس گئے
کوئی ہندو کوئی مسلم کوئی عیسائی ہے
سب نے انسان نہ بننے کی قسم کھائی ہے
گھروں پہ نام تھے ناموں کے ساتھ عہدے تھے
بہت تلاش کیا کوئی آدمی نہ ملا
-
موضوع : مشینی زندگی
برا برے کے علاوہ بھلا بھی ہوتا ہے
ہر آدمی میں کوئی دوسرا بھی ہوتا ہے
فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
-
موضوع : مشہور اشعار
آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
-
موضوعات : آدمیاور 1 مزید
ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانئے گا وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
-
موضوع : آدمی
میری رسوائی کے اسباب ہیں میرے اندر
آدمی ہوں سو بہت خواب ہیں میرے اندر
مری زبان کے موسم بدلتے رہتے ہیں
میں آدمی ہوں مرا اعتبار مت کرنا
-
موضوع : بھروسہ
گرجا میں مندروں میں اذانوں میں بٹ گیا
ہوتے ہی صبح آدمی خانوں میں بٹ گیا
-
موضوعات : آدمیاور 1 مزید
سایہ ہے کم کھجور کے اونچے درخت کا
امید باندھئے نہ بڑے آدمی کے ساتھ
-
موضوعات : امیداور 1 مزید
آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے
کتنا طوطے کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا
جانور آدمی فرشتہ خدا
آدمی کی ہیں سیکڑوں قسمیں
اس دور میں انسان کا چہرہ نہیں ملتا
کب سے میں نقابوں کی تہیں کھول رہا ہوں
-
موضوع : نقاب
بھیڑ تنہائیوں کا میلا ہے
آدمی آدمی اکیلا ہے
ہزار چہرے ہیں موجود آدمی غائب
یہ کس خرابے میں دنیا نے لا کے چھوڑ دیا
-
موضوعات : آدمیاور 1 مزید
پھول کر لے نباہ کانٹوں سے
آدمی ہی نہ آدمی سے ملے
دیوتاؤں کا خدا سے ہوگا کام
آدمی کو آدمی درکار ہے
آدمی کے پاس سب کچھ ہے مگر
ایک تنہا آدمیت ہی نہیں
آدمی کا آدمی ہر حال میں ہمدرد ہو
اک توجہ چاہئے انساں کو انساں کی طرف
زمیں نے خون اگلا آسماں نے آگ برسائی
جب انسانوں کے دل بدلے تو انسانوں پہ کیا گزری
آدمی کیا وہ نہ سمجھے جو سخن کی قدر کو
نطق نے حیواں سے مشت خاک کو انساں کیا
دیوتا بننے کی حسرت میں معلق ہو گئے
اب ذرا نیچے اتریے آدمی بن جائیے
کفر و اسلام کی کچھ قید نہیں اے آتشؔ
شیخ ہو یا کہ برہمن ہو پر انساں ہووے
جس کی ادا ادا پہ ہو انسانیت کو ناز
مل جائے کاش ایسا بشر ڈھونڈتے ہیں ہم
نہ تو میں حور کا مفتوں نہ پری کا عاشق
خاک کے پتلے کا ہے خاک کا پتلا عاشق
کیا ترے شہر کے انسان ہیں پتھر کی طرح
کوئی نغمہ کوئی پائل کوئی جھنکار نہیں
روپ رنگ ملتا ہے خد و خال ملتے ہیں
آدمی نہیں ملتا آدمی کے پیکر میں
-
موضوع : آدمی
بنایا اے ظفرؔ خالق نے کب انسان سے بہتر
ملک کو دیو کو جن کو پری کو حور و غلماں کو
بہت ہیں سجدہ گاہیں پر در جاناں نہیں ملتا
ہزاروں دیوتا ہیں ہر طرف انساں نہیں ملتا
ادھر تیری مشیت ہے ادھر حکمت رسولوں کی
الٰہی آدمی کے باب میں کیا حکم ہوتا ہے
آخر انسان ہوں پتھر کا تو رکھتا نہیں دل
اے بتو اتنا ستاؤ نہ خدارا مجھ کو
آدمی سے آدمی کی جب نہ حاجت ہو روا
کیوں خدا ہی کی کرے اتنی نہ پھر یاد آدمی
انسان کی بلندی و پستی کو دیکھ کر
انساں کہاں کھڑا ہے ہمیں سوچنا پڑا
اہل معنی جز نہ بوجھے گا کوئی اس رمز کو
ہم نے پایا ہے خدا کو صورت انساں کے بیچ
-
موضوع : خدا
اے شیخ آدمی کے بھی درجے ہیں مختلف
انسان ہیں ضرور مگر واجبی سے آپ
غیب کا ایسا پرندہ ہے زمیں پر انساں
آسمانوں کو جو شہ پر پہ اٹھائے ہوئے ہے
عالم کے مرقع کو کیا سیر میں لیکن
اس میں بھی کوئی صورت انسان نہ نکلی