امن پر اشعار
شاعری کا ایک اہم ترین
کام یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ بہت خاموشی سے ہمیں ایک بہتر انسان بننے کی راہ پر لگا دیتی ہے اور پھر دھیرے دھیرے ہم زندگی میں ہر طرح کی منفیت کو نکارنے لگتے ہیں۔ امن کے اس عنوان سے ہم آپ کے لیے کچھ ایسی ہی شاعری پیش کر رہے ہیں جو آپ کو ہر قسم کے خطرناک انسانی جذبات کی گرفت سے بچانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ یہ شاعری ہم سب کے لیےبہتر انسان بننے اور اپنی انا کو ختم کرنے کا ایک سبق بھی ہے اور دنیا میں امن و شانتی قائم کرنے کی کوشش میں لگے لوگوں کے لیے ایک چھوٹی سی گائڈ بک بھی۔ آپ اسے پڑھیے اور اس میں موجود پیغام کو عام کیجیے۔
دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں
اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو پھر
چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لیے
ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
-
موضوعات : فلمی اشعاراور 2 مزید
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
-
موضوعات : انقلاباور 3 مزید
سات صندوقوں میں بھر کر دفن کر دو نفرتیں
آج انساں کو محبت کی ضرورت ہے بہت
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
-
موضوع : یکجہتی
حفیظؔ اپنی بولی محبت کی بولی
نہ اردو نہ ہندی نہ ہندوستانی
سبھی کے دیپ سندر ہیں ہمارے کیا تمہارے کیا
اجالا ہر طرف ہے اس کنارے اس کنارے کیا
-
موضوعات : سماجی ہم آہنگیاور 1 مزید
اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے
جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایا جائے
-
موضوعات : آنگناور 2 مزید
مجھ میں تھوڑی سی جگہ بھی نہیں نفرت کے لیے
میں تو ہر وقت محبت سے بھرا رہتا ہوں
عجیب درد کا رشتہ ہے ساری دنیا میں
کہیں ہو جلتا مکاں اپنا گھر لگے ہے مجھے
-
موضوع : یکجہتی
یہ دنیا نفرتوں کے آخری اسٹیج پہ ہے
علاج اس کا محبت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
پرواز میں تھا امن کا معصوم پرندہ
سنتے ہیں کہ بے چارہ شجر تک نہیں پہنچا
جنگ کا شور بھی کچھ دیر تو تھم سکتا ہے
پھر سے اک امن کی افواہ اڑا دی جائے
رہے تذکرے امن کے آشتی کے
مگر بستیوں پر برستے رہے بم
سنا ہے امن پرستوں کا وہ علاقہ ہے
وہیں شکار کبوتر ہوا تو کیسے ہوا
کتنا پر امن ہے ماحول فسادات کے بعد
شام کے وقت نکلتا نہیں باہر کوئی
امن کا قتل ہو گیا جب سے
شہر اب بد حواس رہتا ہے
شہر میں امن و اماں ہو یہ ضروری ہے مگر
حاکم وقت کے ماتھے پہ لکھا ہی کچھ ہے
مل کے سب امن و چین سے رہئے
لعنتیں بھیجئے فسادوں پر
خدائے امن جو کہتا ہے خود کو
زمیں پر خود ہی مقتل لکھ رہا ہے
امن کیفیؔ ہو نہیں سکتا کبھی
جب تلک ظلم و ستم موجود ہے
امن کے سارے سپنے جھوٹے
سپنوں کی تعبیریں جھوٹی
امن اور آشتی سے اس کو کیا
اس کا مقصد تو انتشار میں ہے
ہاں دل بے تاب چندے انتظار
امن و راحت کا ٹھکانہ اور ہے
امن عالم کی خاطر
جنگ یگوں سے جاری ہے
اپنے دیش میں گھر گھر امن ہے کہ جھگڑے ہیں
دیکھو روز ناموں کی سرخیاں بتائیں گی
چلو امن و اماں ہے میکدے میں
وہیں کچھ پل ٹھہر کر دیکھتے ہیں
بہ نام امن و اماں کون مارا جائے گا
نہ جانے آج یہاں کون مارا جائے گا
بادلوں نے آج برسایا لہو
امن کا ہر فاختہ رونے لگا
معصوم ہے معصوم بہت امن کی دیوی
قبضہ میں لیے خنجر خوں خار ابھی تک
دھوپ کے سائے میں چپ سادھے ہوئے
کر رہے ہو امن کا اعلان کیا
امن اور تیرے عہد میں ظالم
کس طرح خاک رہ گزر بیٹھے
امن پرچار تلک ٹھیک سہی لیکن امن
تم کو لگتا ہے کہ ہوگا نہیں ہونے والا