Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

یکجہتی پر اشعار

اتحاد اور یکجہتی انسانوں

کی سب سے بڑی طاقت ہے اس کا مشاہدہ ہم زندگی کے ہر مرحلے میں کرتے ہیں ۔ انسانوں کے زندگی گزارنے کا سماجی نظام اسی وحدت اور یکجہتی کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے ۔ اسی سے تہذیبیں وجود پذیر ہوتی ہیں اور نئے سماجی نظام نمو پاتے ہیں۔ وحدت کو نگل لینے والی منفی صورتیں بھی ہمارے آس پاس بکھری پڑی ہوتی ہیں ان سے مقابلہ کرنا بھی انسانی سماج کی ایک اہم ذمے داری ہے لیکن اس کے باوجود بھی کبھی یہ اتحاد ختم ہوتا اور کبھی بنتا ہے ، جب بنتا ہے تو کیا خوشگوار صورت پیدا ہوتی ہے اور جب ٹوٹتا ہے تو اس کے منفی اثرات کیا ہوتے ہیں ۔ ان تمام جہتوں کو یہ شعری انتخاب موضوع بناتا ہے ۔

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

امیر مینائی

ہم اپنی جان کے دشمن کو اپنی جان کہتے ہیں

محبت کی اسی مٹی کو ہندستان کہتے ہیں

راحت اندوری

ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں

ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے

ابو المجاہد زاہد

سات صندوقوں میں بھر کر دفن کر دو نفرتیں

آج انساں کو محبت کی ضرورت ہے بہت

بشیر بدر

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

ساحر لدھیانوی

دلوں میں حب وطن ہے اگر تو ایک رہو

نکھارنا یہ چمن ہے اگر تو ایک رہو

جعفر ملیح آبادی

حفیظؔ اپنی بولی محبت کی بولی

نہ اردو نہ ہندی نہ ہندوستانی

حفیظ جالندھری

سگی بہنوں کا جو رشتہ ہے اردو اور ہندی میں

کہیں دنیا کی دو زندہ زبانوں میں نہیں ملتا

منور رانا

یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں

کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں

الطاف حسین حالی

یہ دنیا نفرتوں کے آخری اسٹیج پہ ہے

علاج اس کا محبت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے

چرن سنگھ بشر

اب تو مذہب کوئی ایسا بھی چلایا جائے

جس میں انسان کو انسان بنایا جائے

گوپال داس نیرج

مجھ میں تھوڑی سی جگہ بھی نہیں نفرت کے لیے

میں تو ہر وقت محبت سے بھرا رہتا ہوں

مرزا اطہر ضیا

اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے

جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایا جائے

ظفر زیدی

عجیب درد کا رشتہ ہے ساری دنیا میں

کہیں ہو جلتا مکاں اپنا گھر لگے ہے مجھے

ملک زادہ منظور احمد

نفرت کے خزانے میں تو کچھ بھی نہیں باقی

تھوڑا سا گزارے کے لیے پیار بچائیں

عرفان صدیقی

ہمارا خون کا رشتہ ہے سرحدوں کا نہیں

ہمارے خون میں گنگا بھی چناب بھی ہے

کنول ضیائی

ہمارے غم تمہارے غم برابر ہیں

سو اس نسبت سے تم اور ہم برابر ہیں

نامعلوم

اہل ہنر کے دل میں دھڑکتے ہیں سب کے دل

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

فضل احمد کریم فضلی

کسی کا کوئی مر جائے ہمارے گھر میں ماتم ہے

غرض بارہ مہینے تیس دن ہم کو محرم ہے

رند لکھنوی

رنجشیں ایسی ہزار آپس میں ہوتی ہیں دلا

وہ اگر تجھ سے خفا ہے تو ہی جا مل کیا ہوا

جرأت قلندر بخش

مرے صحن پر کھلا آسمان رہے کہ میں

اسے دھوپ چھاؤں میں بانٹنا نہیں چاہتا

خاور اعجاز

سنو ہندو مسلمانو کہ فیض عشق سے حاتمؔ

ہوا آزاد قید مذہب و مشرب سے اب فارغ

شیخ ظہور الدین حاتم

ہم اہل دل نے معیار محبت بھی بدل ڈالے

جو غم ہر فرد کا غم ہے اسی کو غم سمجھتے ہیں

علی جواد زیدی

پی شراب نام رنداں تا اثر سوں کیف کے

ذکر اللہ اللہ ہو وے گر کہے تو رام رام

قربی ویلوری
بولیے