شجر پر اشعار
بچھڑ کے تجھ سے نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپ
اڑا دیئے ہیں پرندے شجر پہ بیٹھے ہوئے
-
موضوعات : پرندہاور 1 مزید
کل رات جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بہت پیار تھا اس بوڑھے شجر سے
یہ اک شجر کہ جس پہ نہ کانٹا نہ پھول ہے
سائے میں اس کے بیٹھ کے رونا فضول ہے
وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا
شجر نے پوچھا کہ تجھ میں یہ کس کی خوشبو ہے
ہوائے شام الم نے کہا اداسی کی
-
موضوعات : شاماور 1 مزید
ہر شخص پر کیا نہ کرو اتنا اعتماد
ہر سایہ دار شے کو شجر مت کہا کرو
غموں سے بیر تھا سو ہم نے خود کشی کر لی
شجر گرا کے پرندوں سے انتقام لیا
-
موضوعات : خودکشیاور 1 مزید
اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے
جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایا جائے
-
موضوعات : آنگناور 2 مزید
آ مجھے چھو کے ہرا رنگ بچھا دے مجھ پر
میں بھی اک شاخ سی رکھتا ہوں شجر کرنے کو
تھکن بہت تھی مگر سایۂ شجر میں جمالؔ
میں بیٹھتا تو مرا ہم سفر چلا جاتا
عجیب درد کا رشتہ تھا سب کے سب روئے
شجر گرا تو پرندے تمام شب روئے
اڑ گئے سارے پرندے موسموں کی چاہ میں
انتظار ان کا مگر بوڑھے شجر کرتے رہے
میں اک شجر کی طرح رہگزر میں ٹھہرا ہوں
تھکن اتار کے تو کس طرف روانہ ہوا
چلے جو دھوپ میں منزل تھی ان کی
ہمیں تو کھا گیا سایہ شجر کا
تم لگاتے چلو اشجار جدھر سے گزرو
اس کے سائے میں جو بیٹھے گا دعا ہی دے گا
سفر ہو شاہ کا یا قافلہ فقیروں کا
شجر مزاج سمجھتے ہیں راہگیروں کا
بھلے ہی چھاؤں نہ دے آسرا تو دیتا ہے
یہ آرزو کا شجر ہے خزاں رسیدہ سہی
پرندے لڑ ہی پڑے جائیداد پر آخر
شجر پہ لکھا ہوا ہے شجر برائے فروخت
مکاں بناتے ہوئے چھت بہت ضروری ہے
بچا کے صحن میں لیکن شجر بھی رکھنا ہے
اس شجر کے سائے میں بیٹھا ہوں میں
جس کی شاخوں پر کوئی پتا نہیں
عرشؔ بہاروں میں بھی آیا ایک نظارہ پت جھڑ کا
سبز شجر کے سبز تنے پر اک سوکھی سی ڈالی تھی
لگایا محبت کا جب یاں شجر
شجر لگ گیا اور ثمر جل گیا
جل کر گرا ہوں سوکھے شجر سے اڑا نہیں
میں نے وہی کیا جو تقاضا وفا کا تھا
برسوں سے اس میں پھل نہیں آئے تو کیا ہوا
سایہ تو اب بھی صحن کے کہنہ شجر میں ہے
پرانے عہد کے قصے سناتا رہتا ہے
بچا ہوا ہے جو بوڑھا شجر ہماری طرف
میرے اشجار عزادار ہوئے جاتے ہیں
گاؤں کے گاؤں جو بازار ہوئے جاتے ہیں