Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

وعدہ پر اشعار

وعدہ اگر وفا ہوجائے

تو پھر وہ وعدہ ہی کہاں ۔ معشوق ہمیشہ وعدہ خلاف ہوتا ہے ، دھوکے باز ہوتا ہے ۔ وہ عاشق سے وعدہ کرتا ہے لیکن وفا نہیں کرتا ۔ یہ وعدے ہی عاشق کے جینے کا بہانہ ہوتے ہیں ۔ ہمارے اس انتخاب میں وعدہ کرنے اور اسے توڑنے کی دلچسپ صورتوں سے آپ گزریں گے ۔

وفا کریں گے نباہیں گے بات مانیں گے

تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا

داغؔ دہلوی

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید

جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

مرزا غالب

نہ کوئی وعدہ نہ کوئی یقیں نہ کوئی امید

مگر ہمیں تو ترا انتظار کرنا تھا

فراق گورکھپوری

ترے وعدوں پہ کہاں تک مرا دل فریب کھائے

کوئی ایسا کر بہانہ مری آس ٹوٹ جائے

فنا نظامی کانپوری

عادتاً تم نے کر دیے وعدے

عادتاً ہم نے اعتبار کیا

گلزار

غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا

تمام رات قیامت کا انتظار کیا

داغؔ دہلوی

تیری مجبوریاں درست مگر

تو نے وعدہ کیا تھا یاد تو کر

ناصر کاظمی

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

مومن خاں مومن

کیوں پشیماں ہو اگر وعدہ وفا ہو نہ سکا

کہیں وعدے بھی نبھانے کے لئے ہوتے ہیں

عبرت مچھلی شہری

ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا

کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

مرزا غالب

ایک اک بات میں سچائی ہے اس کی لیکن

اپنے وعدوں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے

کفیل آزر امروہوی

اب تم کبھی نہ آؤ گے یعنی کبھی کبھی

رخصت کرو مجھے کوئی وعدہ کیے بغیر

جون ایلیا

خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا

جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا

داغؔ دہلوی

ایک مدت سے نہ قاصد ہے نہ خط ہے نہ پیام

اپنے وعدے کو تو کر یاد مجھے یاد نہ کر

جلالؔ مانکپوری

صاف انکار اگر ہو تو تسلی ہو جائے

جھوٹے وعدوں سے ترے رنج سوا ہوتا ہے

قیصر حیدری دہلوی

ثبوت ہے یہ محبت کی سادہ لوحی کا

جب اس نے وعدہ کیا ہم نے اعتبار کیا

جوش ملیح آبادی

دن گزارا تھا بڑی مشکل سے

پھر ترا وعدۂ شب یاد آیا

ناصر کاظمی

کس منہ سے کہہ رہے ہو ہمیں کچھ غرض نہیں

کس منہ سے تم نے وعدہ کیا تھا نباہ کا

حفیظ جالندھری

تیرے وعدے کو کبھی جھوٹ نہیں سمجھوں گا

آج کی رات بھی دروازہ کھلا رکھوں گا

شہریار

پھر بیٹھے بیٹھے وعدۂ وصل اس نے کر لیا

پھر اٹھ کھڑا ہوا وہی روگ انتظار کا

امیر مینائی

میں بھی حیران ہوں اے داغؔ کہ یہ بات ہے کیا

وعدہ وہ کرتے ہیں آتا ہے تبسم مجھ کو

داغؔ دہلوی

میں اس کے وعدے کا اب بھی یقین کرتا ہوں

ہزار بار جسے آزما لیا میں نے

مخمور سعیدی

امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی

وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا

چراغ حسن حسرت

وعدہ نہیں پیام نہیں گفتگو نہیں

حیرت ہے اے خدا مجھے کیوں انتظار ہے

لالہ مادھو رام جوہر

تھا وعدہ شام کا مگر آئے وہ رات کو

میں بھی کواڑ کھولنے فوراً نہیں گیا

انور شعور

وہ امید کیا جس کی ہو انتہا

وہ وعدہ نہیں جو وفا ہو گیا

الطاف حسین حالی

اور کچھ دیر ستارو ٹھہرو

اس کا وعدہ ہے ضرور آئے گا

احسان دانش

پھر چاہے تو نہ آنا او آن بان والے

جھوٹا ہی وعدہ کر لے سچی زبان والے

آرزو لکھنوی

برسوں ہوئے نہ تم نے کیا بھول کر بھی یاد

وعدے کی طرح ہم بھی فراموش ہو گئے

جلیل مانک پوری

آپ تو منہ پھیر کر کہتے ہیں آنے کے لیے

وصل کا وعدہ ذرا آنکھیں ملا کر کیجیے

لالہ مادھو رام جوہر

آپ نے جھوٹا وعدہ کر کے

آج ہماری عمر بڑھا دی

کیف بھوپالی

وہ پھر وعدہ ملنے کا کرتے ہیں یعنی

ابھی کچھ دنوں ہم کو جینا پڑے گا

آسی غازی پوری

جھوٹے وعدے بھی نہیں کرتے آپ

کوئی جینے کا سہارا ہی نہیں

جلیل مانک پوری

جھوٹے وعدوں پر تھی اپنی زندگی

اب تو وہ بھی آسرا جاتا رہا

مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی

دل کبھی لاکھ خوشامد پہ بھی راضی نہ ہوا

کبھی اک جھوٹے ہی وعدے پہ بہلتے دیکھا

جلیل مانک پوری

جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا

تمہیں منصفی سے کہہ دو تمہیں اعتبار ہوتا

داغؔ دہلوی

بھولنے والے کو شاید یاد وعدہ آ گیا

مجھ کو دیکھا مسکرایا خود بہ خود شرما گیا

اثر لکھنوی

مان لیتا ہوں تیرے وعدے کو

بھول جاتا ہوں میں کہ تو ہے وہی

جلیل مانک پوری

ان وفاداری کے وعدوں کو الٰہی کیا ہوا

وہ وفائیں کرنے والے بے وفا کیوں ہو گئے

اختر شیرانی

وعدہ جھوٹا کر لیا چلئے تسلی ہو گئی

ہے ذرا سی بات خوش کرنا دل ناشاد کا

داغؔ دہلوی

سوال وصل پر کچھ سوچ کر اس نے کہا مجھ سے

ابھی وعدہ تو کر سکتے نہیں ہیں ہم مگر دیکھو

بیخود دہلوی

صاف کہہ دیجئے وعدہ ہی کیا تھا کس نے

عذر کیا چاہیئے جھوٹوں کے مکرنے کے لیے

داغؔ دہلوی

اس کے وعدوں سے اتنا تو ثابت ہوا اس کو تھوڑا سا پاس تعلق تو ہے

یہ الگ بات ہے وہ ہے وعدہ شکن یہ بھی کچھ کم نہیں اس نے وعدے کیے

عامر عثمانی

مجھے ہے اعتبار وعدہ لیکن

تمہیں خود اعتبار آئے نہ آئے

اختر شیرانی

وہ اور وعدہ وصل کا قاصد نہیں نہیں

سچ سچ بتا یہ لفظ انہی کی زباں کے ہیں

مفتی صدرالدین آزردہ

تجھ کو دیکھا ترے وعدے دیکھے

اونچی دیوار کے لمبے سائے

باقی صدیقی

وعدہ وہ کر رہے ہیں ذرا لطف دیکھیے

وعدہ یہ کہہ رہا ہے نہ کرنا وفا مجھے

جلیل مانک پوری

بس ایک بار ہی توڑا جہاں نے عہد وفا

کسی سے ہم نے پھر عہد وفا کیا ہی نہیں

ابراہیم اشکؔ

بعض وعدے کیے نہیں جاتے

پھر بھی ان کو نبھایا جاتا ہے

انجم خیالی

آپ کی قسموں کا اور مجھ کو یقیں

ایک بھی وعدہ کبھی پورا کیا

شوخ امروہوی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے