الوداع پر اشعار
کسی کو رخصت کرتے ہوئے
ہم جن کیفیتوں سے گزرتے ہیں انہیں محسوس تو کیا جاسکتا ہے لیکن ان کا اظہار اور انہیں زبان دینا ایک مشکل امر ہے، صرف ایک تخلیقی اظہار ہی ان کیفیتوں کی لفظی تجسیم کا متحمل ہوسکتا ہے ۔ ’’الوداع‘‘ کے لفظ کے تحت ہم نے جو اشعار جمع کئے ہیں وہ الوداعی کیفیات کے انہیں نامعلوم علاقوں کی سیر ہیں ۔
تمہیں ضرور کوئی چاہتوں سے دیکھے گا
مگر وہ آنکھیں ہماری کہاں سے لائے گا
-
موضوعات : عشقاور 1 مزید
اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
-
موضوعات : فلمی اشعاراور 2 مزید
آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا
جانے والے تو ہمیں یاد بہت آئے گا
جاتے ہو خدا حافظ ہاں اتنی گزارش ہے
جب یاد ہم آ جائیں ملنے کی دعا کرنا
-
موضوعات : دعااور 1 مزید
اس کو رخصت تو کیا تھا مجھے معلوم نہ تھا
سارا گھر لے گیا گھر چھوڑ کے جانے والا
-
موضوعات : جدائیاور 2 مزید
جانے والے سے ملاقات نہ ہونے پائی
دل کی دل میں ہی رہی بات نہ ہونے پائی
-
موضوعات : دلاور 3 مزید
تمہارے ساتھ یہ موسم فرشتوں جیسا ہے
تمہارے بعد یہ موسم بہت ستائے گا
اگر تلاش کروں کوئی مل ہی جائے گا
مگر تمہاری طرح کون مجھ کو چاہے گا
چھوڑنے میں نہیں جاتا اسے دروازے تک
لوٹ آتا ہوں کہ اب کون اسے جاتا دیکھے
جانے والے کو کہاں روک سکا ہے کوئی
تم چلے ہو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں
اب تم کبھی نہ آؤ گے یعنی کبھی کبھی
رخصت کرو مجھے کوئی وعدہ کیے بغیر
عجیب ہوتے ہیں آداب رخصت محفل
کہ وہ بھی اٹھ کے گیا جس کا گھر نہ تھا کوئی
یاد ہے اب تک تجھ سے بچھڑنے کی وہ اندھیری شام مجھے
تو خاموش کھڑا تھا لیکن باتیں کرتا تھا کاجل
-
موضوعات : جدائیاور 1 مزید
یہ ایک پیڑ ہے آ اس سے مل کے رو لیں ہم
یہاں سے تیرے مرے راستے بدلتے ہیں
اس سے ملنے کی خوشی بعد میں دکھ دیتی ہے
جشن کے بعد کا سناٹا بہت کھلتا ہے
-
موضوعات : جدائیاور 2 مزید
گونجتے رہتے ہیں الفاظ مرے کانوں میں
تو تو آرام سے کہہ دیتا ہے اللہ حافظ
تم سنو یا نہ سنو ہاتھ بڑھاؤ نہ بڑھاؤ
ڈوبتے ڈوبتے اک بار پکاریں گے تمہیں
یہ گھر مرا گلشن ہے گلشن کا خدا حافظ
اللہ نگہبان نشیمن کا خدا حافظ
ریل دیکھی ہے کبھی سینے پہ چلنے والی
یاد تو ہوں گے تجھے ہاتھ ہلاتے ہوئے ہم
اسے جانے کی جلدی تھی سو میں آنکھوں ہی آنکھوں میں
جہاں تک چھوڑ سکتا تھا وہاں تک چھوڑ آیا ہوں
تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی
اور تری بزم سے اب کوئی اٹھا چاہتا ہے
وقت رخصت الوداع کا لفظ کہنے کے لیے
وہ ترے سوکھے لبوں کا تھرتھرانا یاد ہے
کلیجہ رہ گیا اس وقت پھٹ کر
کہا جب الوداع اس نے پلٹ کر
اس سے ملے زمانہ ہوا لیکن آج بھی
دل سے دعا نکلتی ہے خوش ہو جہاں بھی ہو
میں جانتا ہوں مرے بعد خوب روئے گا
روانہ کر تو رہا ہے وہ ہنستے ہنستے مجھے
تم اسی موڑ پر ہمیں ملنا
لوٹ کر ہم ضرور آئیں گے
اب کے جاتے ہوئے اس طرح کیا اس نے سلام
ڈوبنے والا کوئی ہاتھ اٹھائے جیسے
دکھ کے سفر پہ دل کو روانہ تو کر دیا
اب ساری عمر ہاتھ ہلاتے رہیں گے ہم
ایک دن کہنا ہی تھا اک دوسرے کو الوداع
آخرش سالمؔ جدا اک بار تو ہونا ہی تھا
جادہ جادہ چھوڑ جاؤ اپنی یادوں کے نقوش
آنے والے کارواں کے رہنما بن کر چلو
وہ الوداع کا منظر وہ بھیگتی پلکیں
پس غبار بھی کیا کیا دکھائی دیتا ہے
ہم نے مانا اک نہ اک دن لوٹ کے تو آ جائے گا
لیکن تجھ بن عمر جو گزری کون اسے لوٹائے گا
وقت رخصت تری آنکھوں کا وہ جھک سا جانا
اک مسافر کے لیے زاد سفر ہے اے دوست
جاتے جاتے ان کا رکنا اور مڑ کر دیکھنا
جاگ اٹھا آہ میرا درد تنہائی بہت
یہ ہم ہی جانتے ہیں جدائی کے موڑ پر
اس دل کا جو بھی حال تجھے دیکھ کر ہوا
برق کیا شرارہ کیا رنگ کیا نظارہ کیا
ہر دئے کی مٹی میں روشنی تمہاری ہے
کیوں گرفتہ دل نظر آتی ہے اے شام فراق
ہم جو تیرے ناز اٹھانے کے لیے موجود ہیں
چمن سے رخصت گل ہے نہ لوٹنے کے لیے
تو بلبلوں کا تڑپنا یہاں پہ جائز ہے
لگا جب یوں کہ اکتانے لگا ہے دل اجالوں سے
اسے محفل سے اس کی الوداع کہہ کر نکل آئے
آب دیدہ ہو کے وہ آپس میں کہنا الوداع
اس کی کم میری سوا آواز بھرائی ہوئی
آئی ہوگی تو موت آئے گی
تم تو جاؤ مرا خدا حافظ
تمام شہر جسے چھوڑنے کو آیا ہے
وہ شخص کتنا اکیلا سفر پہ نکلے گا
اب مجھ کو رخصت ہونا ہے اب میرا ہار سنگھار کرو
کیوں دیر لگاتی ہو سکھیو جلدی سے مجھے تیار کرو