ناصر کاظمی
غزل 111
اشعار 86
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا
یوں ہی ذرا سی کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا
اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاؤں کس کے لیے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
یہ کہہ کے چھیڑتی ہے ہمیں دل گرفتگی
گھبرا گئے ہیں آپ تو باہر ہی لے چلیں
تشریح
دوستو! آج ناصر کاظمی کے اس حسین شعر کی تشریح کرتے ہیں۔ اپنے کلام میں غم کو بیان کرنے کی جو مہارت ناصر کاظمی کو حاصل ہے اس کی مثال مشکل ہی سے ملتی ہے۔
اندوہناک جذبۂ دل گرفتگی کا شاعر سے کلام کرنا ایک خوبصورت اصطلاح ہے۔ شاعر تمام تر غم و آلام سے چور ہے، اس کا دل غم کے بوجھ سے بھرا ہوا ہے، اس کی زندگی کرب اور تکلیف سے یکسر بھری پڑی ہے۔ اور یہ کرب اس کی پوری زندگی پر محیط ہے۔
شعر پڑھ کر ایسا تاثر پیدا ہوتا ہے کہ زندگی کا کوئی لمحہ کرب و الم سے خالی نہیں ہے، اس قدر کہ شاعر کی پوری زندگی اس غم کی نذر ہو چکی ہے، اور اسے اس سے مفر کا کوئی موقع ہی نہیں، کوئی راستہ ہی نہیں۔ اس کا پیمانۂ زندگی غم سے اس درجہ لبریز ہو چکا ہے کہ بس چھلکا ہی چاہتا ہے اور ایسے میں ایک باطنی آواز اس کی اس اندوہناک کیفیت کا گویا مذاق اڑاتی ہوئی اس سے کہتی ہے کہ یہ غم و الم جس میں آپ پوری طرح گرفتار ہو چکے ہیں اور جس سے آپ کا نکلنا محال ہے اگر آپ اس سے گھبرا چکے ہیں تو آئیے آپ کو اس کیفیت سے باہر لے جلتے ہیں۔ مگر اس خوبصورت انداز بیان میں یہ شے پنہاں ہے کہ باہر بھی اس کیفیت سے کوئی بچاؤ کی راہ نہیں ہے۔
علامہ اقبال نے ایک جگہ اس کیفیت کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔
مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیح ِ روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ
ناصر کاظمی نے غم کے تصور کو اپنی ذات کی سطح سے اٹھا کر آفاقی رنگ عطا کر دیا اور ایسے خوبصورت پیکر تراشے کہ گویا یہ آواز ہمیں اپنے دل ہی کی آواز سنائی دیتی ہے۔
آپ اندازہ کیجئے کہ ایک شخص جو ہمہ وقت طرح طرح کے آلام سے دوچار ہے، اس کی ذہنی کیفیت کس قدر پر سوز ہو چکی ہوتی ہے۔ اس کو زندگی کے سارے رنگ پھیکے، سارے گل بے رنگ و بو، اور سارے شغل بے معنی نظر آتے ہیں۔ اس کی حرکات و سکنات اس کے جذبات کی غماز ہوتی ہیں۔ ذہنی انتشار اور بے چینی حد کو پہنچ چکی ہوتی ہے اور وہ اس کیفیت اور اس اضطراب سے باہر نکلنے کی کوئی صورت ہی نہیں پاتا ہے۔ ایسے میں شاعر کی بے کلی، بے چینی، dejection خود اس کی اس کیفیت پر ترس کھا کر اس سے کہتی ہے کہ آپ اس دائمی کیفیت سے پریشان ہو چکے ہیں تو آئیے آپ کو باہر کی سیر کرا دیتے ہیں۔ مگر اس میں یہ نکتہ بھی پوشیدہ ہے کہ باہر کی کیفیت بھی کوئی اس اندرونی کیفیت سے جداگانہ نہیں ہے۔ شاعر درد و غم کی اس سطح کا مشاہدہ کر رہا ہے جہاں اندرون اور بیرون سب یکساں ہے۔ اس کے لیے ہمیشہ ہی غموں کا اندھیرا ہے، ہر جگہ اداسی ہے، ہر گام بے بسی ہے، ہر لمحہ مایوسی ہے، ہر آن درد و اضطراب ہے۔
اس شعر کی کرافٹ میں جو تکلم کا انداز اپنایا گیا ہے وہ بجائے خود حسن ہے، جس نے غم کی کیفیت کو بیان کرنے کے نئے زاویے قائم کیے ہیں، نئے انداز وضع کیے ہیں ۔
اس حسین شعر میں شاعر نے اپنی زندگی کی دائمی غم ناک حالت کو بیان کرنے کا خوبصورت طریقہ اختیار کیا ہے اور یوں بھی ناصر کاظمی نے درد و غم کو جس طرح شعری جامہ پہنایا ہے اس کی مثال مشکل سے ہی ملتی ہے ۔
سہیل آزاد
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
کتاب 55
تصویری شاعری 32
دیار_دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا ملا نہیں تو کیا ہوا وہ شکل تو دکھا گیا وہ دوستی تو خیر اب نصیب_دشمناں ہوئی وہ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا لطف بھی چلا گیا جدائیوں کے زخم درد_زندگی نے بھر دیے تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا پکارتی ہیں فرصتیں کہاں گئیں وہ صحبتیں زمیں نگل گئی انہیں کہ آسمان کھا گیا یہ صبح کی سفیدیاں یہ دوپہر کی زردیاں اب آئنے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا یہ کس خوشی کی ریت پر غموں کو نیند آ گئی وہ لہر کس طرف گئی یہ میں کہاں سما گیا گئے دنوں کی لاش پر پڑے رہو_گے کب تلک الم_کشو اٹھو کہ آفتاب سر پہ آ گیا