Quiz A collection of interesting questions related to Urdu poetry, prose and literary history. Play Rekhta Quiz and check your knowledge about Urdu!
دلچسپ موضوعات اور معروف شاعروں کے منتخب ۲۰ اشعار
اردو کا پہلا آن لائن کراس ورڈ معمہ۔ زبان و ادب سے متعلق دلچسپ معمے حل کیجیے اور اپنی معلومات میں اضافہ کیجیے۔
معمہ حل کیجیےمعنی
بے نام مسافت ہی مقدر ہے تو کیا غم
منزل کا تعین کبھی ہوتا ہے سفر سے
"مشکل ہے کہ اب شہر میں نکلے کوئی گھر سے" پروین شاکر کی غزل سے
نئی اور پرانی اردو و ہندی کتابیں صرف RekhtaBooks.com پر حاصل کریں۔
Rekhtabooks.com کو براؤز کریں۔Quiz A collection of interesting questions related to Urdu poetry, prose and literary history. Play Rekhta Quiz and check your knowledge about Urdu!
مشہور شاعر اور فلمی نغمہ نگار مجروح سلطانپوری کے والد نے ان کا داخلہ لکھنو کے یونانی کالج میں کرایا تھا تاکہ وہ حکیم بن جائیں۔ وہاں تو ان کا جی نہیں لگتا تھا، انھوں نے وہیں میوزک کالج میں بھی داخلہ لے لیا۔ والد کو پتہ چلا تو فوراؑ نام کٹوانے کا حکم دیا اور مجروح کو میوزک کالج چھوڑنا پڑا۔ حکمت کی تعلیم بھی بادلِ نا خواستہ مکمل کر لی اور 1940 میں اپنے وطن سلطانپور کے محلہ پلٹن بازار میں مطب بھی کھول لیا۔ لیکن وہاں بس نام کےلئے بیٹھتے تھے۔ شام ہوتے ہی اپنے چند دوستوں کے ساتھ گومتی ندی کے کنارے پہنچ جاتے اور اپنی سریلی پاٹ دار آواز میں اپنے گیت گاتے۔ اس زمانے کے لکھے ان کے دو گیت بہت پسند کئے جاتے تھے اور جب وہ مشاعروں میں اپنی غزلیں سنا لیتے تب لوگ ان گیتوں کو فرمائش کر کے سنتے تھے۔ ایک گیت کے بول کچھ یوں تھے ۔
ٹیلے کی طرف چرواہے کی بنسی کی صدا ہلکی ہلکی
ہے شام کی دیوی کی چنری شانوں سے پرےڈھلکی ڈھلکی
کچھ تعجب نہیں کہ 1965 میں بنی فلم ' تین دیویاں' میں جب مجروح اس فلم کا یہ گیت لکھ رہے ہوں، جس میں کچھ اسطرح کے بول ہیں :
'جب میری چنریا ململ کی پھر کیوں نہ پھروں جھلکی جھلکی'
تب ان کے ذہن میں اپنا پرانا گیت لہریں لے رہا ہو
"گلابی اردو " کیا ہے اور ملا رموزی،(1896-1952) سے اس کا کیا رشتہ ہے ؟ گلابی اردو ملا رموزی کا دلچسپ طرز تحریر تھا, جو دراصل پرانے انداز کے لفظ بہ لفظ ، ثقیل قسم کے اردو ترجموں کی شگفتہ پیروڈی تھا۔ ملا رموزی یعنی بھوپال کے صدیق ارشاد، مشہور صحافی، طنز نگار اور شاعر تھے۔ وہ اخباروں میں سیاسی اور سماجی موضوعات پر اپنی گلابی اردو میں اس انداز سے لکھتے تھے کہ برٹش حکومت کے پریس ایکٹ کی پابندی کی گرفت میں بھی نہیں آتے تھے، اور اردو دانوں تک ان کی بات پہنچ بھی جاتی تھی۔ لیکن وہ اس انداز کے علاوہ عام آسان زبان میں عام لوگوں کے مسائل اور موضوعات پر بھی طنزیہ اور مزاحیہ مضامین لکھتے تھے جو بہت پسند کئے جاتے تھے۔بھوپال میں مدھیہ پردیش اردو اکادمی کا دفتر 'ملارموزی سانسکرتی بھون' نامی عمارت میں ہے۔ آجکل گلابی اردو کی اصطلاح اردو میں علاقائ الفاظ و لہجے کی آمیزش کے لئے بھی استعمال ہونے لگی ہے۔
رمضان کے مہینے میں بچَے کے پہلے روزے کی تقریب کو روزہ کشائی کہتے ہیں۔ یہ ایک ہندوستانی رسم ہے۔ کشائی لفظ کے معنی ہیں کھولنا یا آغاز کرنا۔
بچہ جب زندگی میں پہلی بار روزہ رکھتا ہے تو اس کے روزہ افطار کے وقت رشتے داروں اور دوستوں کی دعوت کی جاتی ہے۔ روزہ کشائی کی تقریب میں بچے یا بچی کے لئے نئے کپڑے بنتے ہیں۔ اسے رشتے دار اور دوست پیسے اور تحفے بھی دیتے ہیں۔ ہر بچہ یہ دن ساری زندگی یاد رکھتا ہے۔
ناصر کاظمی (1972-1923) کی شاعری میں آغاز سے ہی عشق کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ''عشق، شاعری اور فن یوں تو بچپن سے ہی میرے خون میں ہے۔ لیکن اس ذوق کی پرورش میں ایک دو معاشقوں کا بڑا ہاتھ رہا''۔ پہلا عشق تو انھوں نے محض 13 سال کی عمر میں حمیرہ نام کی ایک لڑکی سے کیا اور دوسرے عشق کو ناصر کاظمی سلمی کے فرضی نام سے یاد کرتے تھے۔
ناصر کاظمی کی پیدایش تو انبالہ میں ہوئی مگر تقسیم ملک کی وجہ سے والدین کو لاہور جانا پڑا۔ ناصر کو ریڈیو پاکستان میں ملازمت مل گئی۔ لاہور میں کافی ہاوؑس کو آباد کرنے والوں میں ناصر کاظمی پیش پیش تھے۔ وہاں احمد مشتاق، انتظار حسین، جیلانی کامران وغیرہ بھی ان کے ساتھ ساتھ ہوتے تھے، جہاں اردو زبان و ادب پر سخت مباحثے ہوتے تھے۔
وہ الفاظ جو گفتگو میں ہزاروں بار بولے جاتے ہیں ان پر غور کریں تو وہ بھی بہت سے روپ دکھاتے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ 'نہ' اور 'نا' کا ہے۔
گونجتی ہے تری حسیں آواز
جیسے نادیدہ کوئی بجتا ساز
جاں نثار اختر
نادیدہ یعنی جو نظر نہ آرہا ہو۔ اور اسی سے ملتا جلتا لفظ ہے 'ندیدہ' یعنی لالچی شخص۔ اس کا لفظی مطلب یے، جس نے دیکھا نہ ہو۔ لالچی شخص کسی چیز کو ایسے ہی دیکھتا ہے جیسے اس سے پہلے کبھی اُس نے دیکھی ہی نہ ہو۔ 'نا' دوسرے لفظوں کے ساتھ جڑ کر نفی کا کام کرتا ہے۔ جیسے 'نالائق 'ناخوش' وغیرہ ۔
' نہ ' اور 'نا' اور 'نہیں' کہاں استعمال ہوگا کہاں نہیں اس بارے میں اہل زبان خوب جانتے ہیں ۔ 'نہ' کہاں لکھا اور بولا جائے گا غالب کے اس شعر سے واضح ہے :
نہ سنو گر بُرا کہے کوئی
نہ کہو گر بُرا کرے کوئی
لیکن فلمی شاعری میں جاوید اختر کے لکھے مشہور گانے میں "کچھ نا کہو ۔ کچھ بھی نا کہو" موسیقی کی ضرورت کے تحت لکھا گیا ہے اور کچھ ایسا بُرا بھی نہیں لگتا۔ اب اہل زبان چاہے جو بھی کہیں۔
'نا‘ کا استعمال اردو میں تاکید اور تائید کے لیے بھی ہوتا ہے:
کسی بزرگ کے بوسے کی اک نشانی ہے
ہمارے ماتھے پہ تھوڑی سی روشنی ہے نا
جدید اردو تنقید کے بنیاد سازوں میں نمایاں
ممتاز شاعروں کا منتخب کلام
हिंदी क्षेत्र की भाषाओं-बोलियों का व्यापक शब्दकोश
Buy Urdu & Hindi books online
A vibrant resource for Hindi literature
A feature-rich website dedicated to sufi-bhakti tradition
A trilingual dictionary of Urdu words
The world's largest language festival
Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi
GET YOUR FREE PASS