Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

موت پر اشعار

موت سب سے بڑی سچائی

اور سب سے تلخ حقیقت ہے ۔ اس کے بارے میں انسانی ذہن ہمیشہ سے سوچتا رہا ہے ، سوال قائم کرتا رہا ہے اور ان سوالوں کے جواب تلاش کرتا رہا ہے لیکن یہ ایک ایسا معمہ ہے جو نہ سمجھ میں آتا ہے اور نہ ہی حل ہوتا ہے ۔ شاعروں اور تخلیق کاروں نے موت اور اس کے ارد گرد پھیلے ہوئے غبار میں سب سے زیادہ ہاتھ پیر مارے ہیں لیکن حاصل ایک بےاننت اداسی اور مایوسی ہے ۔ عشق میں ناکامی اور ہجر کا دکھ جھیلتے رہنے کی وجہ سے عاشق موت کی تمنا بھی کرتا ہے ۔موت کو شاعری میں برتنے کی اور بھی بہت سی جہتیں ہیں ۔ ہمارے اس انتخاب میں دیکھئے ۔

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

خالد شریف

قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پاے کیوں

مرزا غالب

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب

موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا

تشریح

چکبست کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔ غالب نے کیا خوب کہا تھا:

ہو گئے مضمحل قویٰ غالبؔ

اب عناصر میں اعتدال کہاں

انسانی جسم کچھ عناصر کی ترتیب سے تشکیل پاتا ہے۔ حکماء کی نظر میں وہ عناصر آگ، ہوا، مٹی اور پانی ہے۔ ان عناصر میں جب انتشار پیدا ہوتا ہے تو انسانی جسم اپنا توازن کھو بیٹھتا ہے۔یعنی غالب کی زبان میں جب عناصر میں اعتدال نہیں رہتا تو قویٰ یعنی مختلف قوتیں کمزور ہوجاتی ہیں۔ چکبست اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جب تک انسانی جسم میں عناصر ترتیب کے ساتھ رہتے ہیں آدمی زندہ رہتا ہے۔ اور جب یہ عناصر پریشان ہوجاتے ہیں یعنی ان میں توزن اور اعتدال نہیں رہتا تو موت واقع ہو جاتی ہے۔

شفق سوپوری

چکبست برج نرائن

موت کا ایک دن معین ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

تشریح

یہ غالبؔ کے مشہور اشعار میں شمار ہوتا ہے۔ اس شعر میں غالب نے خوب مناسبتیں بھرتی ہیں۔ جیسے دن کی مناسبت سے رات ، موت کی مناسبت سے نیند۔ اس شعر میں غالبؔ نے انسانی نفسیات کے ایک اہم پہلو سے پردہ اٹھاکر ایک نازک مضمون باندھا ہے۔ شعر کے قریب کے معنی تو یہ ہیں کہ جبکہ اللہ نے ہر ذی نفس کی موت کے کئے ایک دن مقرر کیا ہے اور میں بھی اس حقیقت سے خوب واقف ہوں، پھرمجھے رات بھر نیند کیوں نہیں آتی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ نیند کو موت کا ہی ایک روپ مانا جاتا ہے۔ شعر میں یہ رعایت بھی خوب ہے ۔ مگر شعر میں جو تہہ داری ہے اس کی طرف قاری کا دھیان فوری طور پر نہیں جاتا۔ دراصل غالب ؔ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگرچہ موت کا ایک دن الللہ نے مقرر کر کے رکھا ہے اور میں اس حقیقت سے واقف ہوں کہ ایک نہ ایک دن موت آہی جائےگی پھر موت کے کھٹکے سے مجھے ساری رات نیند کیوں نہیں آتی۔ یعنی موت کا ڈر مجھے سونے کیوں نہیں دیتا۔

شفق سوپوری

مرزا غالب

موت کا بھی علاج ہو شاید

زندگی کا کوئی علاج نہیں

فراق گورکھپوری

زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا

ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے

ثاقب لکھنوی

اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا

جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں

جون ایلیا

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے

زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

امیر مینائی

رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی

تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی

کیفی اعظمی

کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی

کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے

رحمان فارس

آئی ہوگی کسی کو ہجر میں موت

مجھ کو تو نیند بھی نہیں آتی

اکبر الہ آبادی

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی

موت آتی ہے پر نہیں آتی

مرزا غالب

نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا

مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

حیدر علی آتش

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا

میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

احمد ندیم قاسمی

کم سے کم موت سے ایسی مجھے امید نہیں

زندگی تو نے تو دھوکے پہ دیا ہے دھوکہ

فراق گورکھپوری

موت سے کس کو رستگاری ہے

آج وہ کل ہماری باری ہے

مرزا شوقؔ  لکھنوی

رونے والوں نے اٹھا رکھا تھا گھر سر پر مگر

عمر بھر کا جاگنے والا پڑا سوتا رہا

بشیر بدر

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس

یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے

محمود رامپوری

ناامیدی موت سے کہتی ہے اپنا کام کر

آس کہتی ہے ٹھہر خط کا جواب آنے کو ہے

فانی بدایونی

جو لوگ موت کو ظالم قرار دیتے ہیں

خدا ملائے انہیں زندگی کے ماروں سے

نظیر صدیقی

لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں

اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں

رئیس فروغ

ماں کی آغوش میں کل موت کی آغوش میں آج

ہم کو دنیا میں یہ دو وقت سہانے سے ملے

کیف بھوپالی

مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے

مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ

جگر مراد آبادی

شکریہ اے قبر تک پہنچانے والو شکریہ

اب اکیلے ہی چلے جائیں گے اس منزل سے ہم

قمر جلالوی

مانگی تھی ایک بار دعا ہم نے موت کی

شرمندہ آج تک ہیں میاں زندگی سے ہم

نامعلوم

زندگی ہے اپنے قبضے میں نہ اپنے بس میں موت

آدمی مجبور ہے اور کس قدر مجبور ہے

احمد امیٹھوی

موت کا انتظار باقی ہے

آپ کا انتظار تھا نہ رہا

فانی بدایونی

زندگی اک سوال ہے جس کا جواب موت ہے

موت بھی اک سوال ہے جس کا جواب کچھ نہیں

امن لکھنوی

دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے

موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے

فانی بدایونی

مجھ کو معلوم ہے انجام محبت کیا ہے

ایک دن موت کی امید پہ جینا ہوگا

مبارک عظیم آبادی

زندگی اک حادثہ ہے اور کیسا حادثہ

موت سے بھی ختم جس کا سلسلہ ہوتا نہیں

جگر مراد آبادی

موت ہی انسان کی دشمن نہیں

زندگی بھی جان لے کر جائے گی

عرش ملسیانی

جانے کیوں اک خیال سا آیا

میں نہ ہوں گا تو کیا کمی ہوگی

خلیل الرحمن اعظمی

موت کہتے ہیں جس کو اے ساغرؔ

زندگی کی کوئی کڑی ہوگی

ساغر صدیقی

گھسیٹتے ہوئے خود کو پھرو گے زیبؔ کہاں

چلو کہ خاک کو دے آئیں یہ بدن اس کا

زیب غوری

وہ جن کے ذکر سے رگوں میں دوڑتی تھیں بجلیاں

انہیں کا ہاتھ ہم نے چھو کے دیکھا کتنا سرد ہے

بشیر بدر

موت سے کیوں اتنی وحشت جان کیوں اتنی عزیز

موت آنے کے لیے ہے جان جانے کے لیے

نامعلوم

کون جینے کے لیے مرتا رہے

لو، سنبھالو اپنی دنیا ہم چلے

اختر سعید خان

موت کیا ایک لفظ بے معنی

جس کو مارا حیات نے مارا

جگر مراد آبادی

اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں

روئیے کس کے لیے کس کس کا ماتم کیجئے

حیدر علی آتش

موت خاموشی ہے چپ رہنے سے چپ لگ جائے گی

زندگی آواز ہے باتیں کرو باتیں کرو

احمد مشتاق

نیند کو لوگ موت کہتے ہیں

خواب کا نام زندگی بھی ہے

احسن یوسف زئی

اب نہیں لوٹ کے آنے والا

گھر کھلا چھوڑ کے جانے والا

اختر نظمی

انیسؔ دم کا بھروسا نہیں ٹھہر جاؤ

چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے

میر انیس

مٹی کا بدن کر دیا مٹی کے حوالے

مٹی کو کہیں تاج محل میں نہیں رکھا

منور رانا

درد کو رہنے بھی دے دل میں دوا ہو جائے گی

موت آئے گی تو اے ہمدم شفا ہو جائے گی

حکیم محمد اجمل خاں شیدا

بے تعلق زندگی اچھی نہیں

زندگی کیا موت بھی اچھی نہیں

حفیظ جالندھری

ہماری زندگی تو مختصر سی اک کہانی تھی

بھلا ہو موت کا جس نے بنا رکھا ہے افسانہ

بیدم شاہ وارثی

بڑی تلاش سے ملتی ہے زندگی اے دوست

قضا کی طرح پتا پوچھتی نہیں آتی

شان الحق حقی

اس وہم سے کہ نیند میں آئے نہ کچھ خلل

احباب زیر خاک سلا کر چلے گئے

جوشؔ ملسیانی
بولیے