Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مجبوری پر اشعار

مجبوری زندگی میں تسلسل

کے ساتھ پیش آنے والی ایک صورتحال ہے جس میں انسان کی جو تھوڑی بہت خود مختاریت ہے وہ بھی ختم ہوجاتی ہے اور انسان پوری طرح سے مجبور ہوجاتا ہے ۔ مجبور ہونا ایک تکلیف دہ احساس کو جنم دیتا ہے اور یہیں سے وہ شاعری پیدا ہوتی ہے جس میں بعض مرتبہ احتجاج بھی ہوتا ہے اور بعض مرتبہ حالات کے مقابلے میں سپر انداز ہونے کی کیفیت بھی ۔ ہم اس طرح کے شعروں کا ایک چھوٹا سا انتخاب پیش کر رہے ہیں ۔

زندگی ہے اپنے قبضے میں نہ اپنے بس میں موت

آدمی مجبور ہے اور کس قدر مجبور ہے

احمد امیٹھوی

ہائے سیمابؔ اس کی مجبوری

جس نے کی ہو شباب میں توبہ

سیماب اکبرآبادی

کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے

کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے

ارتضی نشاط

ادھر سے بھی ہے سوا کچھ ادھر کی مجبوری

کہ ہم نے آہ تو کی ان سے آہ بھی نہ ہوئی

جگر مراد آبادی

یہ میرے عشق کی مجبوریاں معاذ اللہ

تمہارا راز تمہیں سے چھپا رہا ہوں میں

اسرار الحق مجاز

میں چاہتا ہوں اسے اور چاہنے کے سوا

مرے لیے تو کوئی اور راستا بھی نہیں

سعود عثمانی

وحشتیں عشق اور مجبوری

کیا کسی خاص امتحان میں ہوں

خورشید ربانی

کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی

یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا

بشیر بدر

تیری مجبوریاں درست مگر

تو نے وعدہ کیا تھا یاد تو کر

ناصر کاظمی

دشمن مجھ پر غالب بھی آ سکتا ہے

ہار مری مجبوری بھی ہو سکتی ہے

بیدل حیدری

احسان زندگی پہ کئے جا رہے ہیں ہم

من تو نہیں ہے پھر بھی جیے جا رہے ہیں ہم

امتیاز خان

جو کچھ پڑتی ہے سر پر سب اٹھاتا ہے محبت میں

جہاں دل آ گیا پھر آدمی مجبور ہوتا ہے

لالہ مادھو رام جوہر

رسم و رواج چھوڑ کے سب آ گئے یہاں

رکھی ہوئی ہیں طاق میں اب غیرتیں تمام

عدیل زیدی

زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں

ہائے اس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں

فانی بدایونی

آزادیوں کے شوق و ہوس نے ہمیں عدیلؔ

اک اجنبی زمین کا قیدی بنا دیا

عدیل زیدی

میں نے سامان سفر باندھ کے پھر کھول دیا

ایک تصویر نے دیکھا مجھے الماری سے

نامعلوم

کیا مصلحت شناس تھا وہ آدمی قتیلؔ

مجبوریوں کا جس نے وفا نام رکھ دیا

قتیل شفائی

ہائے رے مجبوریاں محرومیاں ناکامیاں

عشق آخر عشق ہے تم کیا کرو ہم کیا کریں

جگر مراد آبادی

مری مجبوریاں کیا پوچھتے ہو

کہ جینے کے لیے مجبور ہوں میں

حفیظ جالندھری

نجانے کون سی مجبوریاں ہیں جن کے لیے

خود اپنی ذات سے انکار کرنا پڑتا ہے

اطہر ناسک

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے