مجبوری پر اشعار
مجبوری زندگی میں تسلسل
کے ساتھ پیش آنے والی ایک صورتحال ہے جس میں انسان کی جو تھوڑی بہت خود مختاریت ہے وہ بھی ختم ہوجاتی ہے اور انسان پوری طرح سے مجبور ہوجاتا ہے ۔ مجبور ہونا ایک تکلیف دہ احساس کو جنم دیتا ہے اور یہیں سے وہ شاعری پیدا ہوتی ہے جس میں بعض مرتبہ احتجاج بھی ہوتا ہے اور بعض مرتبہ حالات کے مقابلے میں سپر انداز ہونے کی کیفیت بھی ۔ ہم اس طرح کے شعروں کا ایک چھوٹا سا انتخاب پیش کر رہے ہیں ۔
کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے
تیری مجبوریاں درست مگر
تو نے وعدہ کیا تھا یاد تو کر
یہ میرے عشق کی مجبوریاں معاذ اللہ
تمہارا راز تمہیں سے چھپا رہا ہوں میں
-
موضوعات : رازاور 2 مزید
زندگی ہے اپنے قبضے میں نہ اپنے بس میں موت
آدمی مجبور ہے اور کس قدر مجبور ہے
-
موضوعات : زندگیاور 1 مزید
ہائے رے مجبوریاں محرومیاں ناکامیاں
عشق آخر عشق ہے تم کیا کرو ہم کیا کریں
-
موضوعات : عشقاور 1 مزید
مری مجبوریاں کیا پوچھتے ہو
کہ جینے کے لیے مجبور ہوں میں
ادھر سے بھی ہے سوا کچھ ادھر کی مجبوری
کہ ہم نے آہ تو کی ان سے آہ بھی نہ ہوئی
احسان زندگی پہ کئے جا رہے ہیں ہم
من تو نہیں ہے پھر بھی جیے جا رہے ہیں ہم
ہائے سیمابؔ اس کی مجبوری
جس نے کی ہو شباب میں توبہ
-
موضوعات : توبہاور 1 مزید
زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
ہائے اس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں
-
موضوعات : جبراور 1 مزید
کیا مصلحت شناس تھا وہ آدمی قتیلؔ
مجبوریوں کا جس نے وفا نام رکھ دیا
وحشتیں عشق اور مجبوری
کیا کسی خاص امتحان میں ہوں
-
موضوعات : عشقاور 1 مزید
جو کچھ پڑتی ہے سر پر سب اٹھاتا ہے محبت میں
جہاں دل آ گیا پھر آدمی مجبور ہوتا ہے
-
موضوعات : دلاور 2 مزید
میں چاہتا ہوں اسے اور چاہنے کے سوا
مرے لیے تو کوئی اور راستا بھی نہیں
میں نے سامان سفر باندھ کے پھر کھول دیا
ایک تصویر نے دیکھا مجھے الماری سے
نجانے کون سی مجبوریاں ہیں جن کے لیے
خود اپنی ذات سے انکار کرنا پڑتا ہے
آزادیوں کے شوق و ہوس نے ہمیں عدیلؔ
اک اجنبی زمین کا قیدی بنا دیا
دشمن مجھ پر غالب بھی آ سکتا ہے
ہار مری مجبوری بھی ہو سکتی ہے
-
موضوعات : دشمناور 1 مزید
رسم و رواج چھوڑ کے سب آ گئے یہاں
رکھی ہوئی ہیں طاق میں اب غیرتیں تمام
پر کٹے پنچھیوں سے پوچھتے ہو
تم میں اڑنے کا حوصلہ ہے کیا