ہجرت پر اشعار
ایک جگہ سے دوسری جگہ
یا ایک وطن سے کسی نئے وطن کی طرف منتقل ہوجانے کو ہجرت کہا جاتا ہے ۔ ہجرت خود اختیاری عمل نہیں ہے بلکہ آدمی بہت سے مذہبی ، سیاسی اور معاشی حالات سے مجبور ہوکر ہجرت کرتا ہے ۔ ہمارے اس انتخاب میں جو شعر ہیں ان میں ہجرت کی مجبوریوں اوراس کے دکھ درد کو موضوع بنایا گیا ہے ساتھ ہی ایک مہاجر اپنے پرانے وطن اور اس سے وابستہ یادوں کی طرف کس طرح پلٹتا ہے اور نئی زمین سے اس کی وابستگی کے کیا مسائل ہیں ان امور کو موضوع بنایا گیا ہے ۔
تلاش رزق کا یہ مرحلہ عجب ہے کہ ہم
گھروں سے دور بھی گھر کے لیے بسے ہوئے ہیں
-
موضوع : بے روزگاری
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
پانی میں عکس اور کسی آسماں کا ہے
یہ ناؤ کون سی ہے یہ دریا کہاں کا ہے
-
موضوع : ناسٹلجیا
مجھے بھی لمحۂ ہجرت نے کر دیا تقسیم
نگاہ گھر کی طرف ہے قدم سفر کی طرف
غربت کی ٹھنڈی چھاؤں میں یاد آئی اس کی دھوپ
قدر وطن ہوئی ہمیں ترک وطن کے بعد
تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں
-
موضوع : گھر
میں کیا جانوں گھروں کا حال کیا ہے
میں ساری زندگی باہر رہا ہوں
درد ہجرت کے ستائے ہوئے لوگوں کو کہیں
سایۂ در بھی نظر آئے تو گھر لگتا ہے
-
موضوع : گھر
مجھے تو خیر وطن چھوڑ کر اماں نہ ملی
وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا
یہ ہجرتیں ہیں زمین و زماں سے آگے کی
جو جا چکا ہے اسے لوٹ کر نہیں آنا
-
موضوعات : خراجاور 1 مزید
گھر تو کیا گھر کا نشاں بھی نہیں باقی صفدرؔ
اب وطن میں کبھی جائیں گے تو مہماں ہوں گے
شکم کی آگ لیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر
سگ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری ہجرت کیا
یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے
-
موضوع : موت
میں بہت کمزور تھا اس ملک میں ہجرت کے بعد
پر مجھے اس ملک میں کمزور تر اس نے کیا
پھر نئی ہجرت کوئی درپیش ہے
خواب میں گھر دیکھنا اچھا نہیں
-
موضوعات : خواباور 1 مزید
ابھی تو ایک وطن چھوڑ کر ہی نکلے ہیں
ہنوز دیکھنی باقی ہیں ہجرتیں کیا کیا
ہر نئی نسل کو اک تازہ مدینے کی تلاش
صاحبو اب کوئی ہجرت نہیں ہوگی ہم سے
آزادیوں کے شوق و ہوس نے ہمیں عدیلؔ
اک اجنبی زمین کا قیدی بنا دیا
یہ کیسی ہجرتیں ہیں موسموں میں
پرندے بھی نہیں ہیں گھونسلوں میں
جب اپنی سر زمین نے مجھ کو نہ دی پناہ
انجان وادیوں میں اترنا پڑا مجھے
رسم و رواج چھوڑ کے سب آ گئے یہاں
رکھی ہوئی ہیں طاق میں اب غیرتیں تمام
نہ رنج ہجرت تھا اور نہ شوق سفر تھا دل میں
سب اپنے اپنے گناہ کا بوجھ ڈھو رہے تھے
-
موضوعات : سفراور 1 مزید
ڈھنگ کے ایک ٹھکانے کے لیے
گھر کا گھر نقل مکانی میں رہا
یہ غم جدا ہے بہت جلدباز تھے ہم تم
یہ دکھ الگ ہے ابھی کائنات باقی ہے