Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گناہ پر اشعار

گناہ ایک خالص مذہبی

تصور ہے لیکن شاعروں نے اسے بہت مختلف طور سے لیا ہے ۔ گناہ کا خوف میں مبتلا کر دینے والا خیال ایک خوشگوار صورت میں تبدیل ہوگیا ہے ۔ یہ شاعری آپ کو گناہ ، ثواب ،خیر وشر کے حوالے سے بالکل ایک نئے بیانیے سے متعارف کرائے گی۔

کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں

عشق توفیق ہے گناہ نہیں

فراق گورکھپوری

یوں زندگی گزار رہا ہوں ترے بغیر

جیسے کوئی گناہ کئے جا رہا ہوں میں

جگر مراد آبادی

اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن

دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے

فیض احمد فیض

تیری بخشش کے بھروسے پہ خطائیں کی ہیں

تیری رحمت کے سہارے نے گنہ گار کیا

مبارک عظیم آبادی

آتا ہے داغ حسرت دل کا شمار یاد

مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ

مرزا غالب

اس بھروسے پہ کر رہا ہوں گناہ

بخش دینا تو تیری فطرت ہے

نامعلوم

مرے گناہ زیادہ ہیں یا تری رحمت

کریم تو ہی بتا دے حساب کر کے مجھے

مضطر خیرآبادی

گناہ گن کے میں کیوں اپنے دل کو چھوٹا کروں

سنا ہے تیرے کرم کا کوئی حساب نہیں

یگانہ چنگیزی

فرشتے حشر میں پوچھیں گے پاک بازوں سے

گناہ کیوں نہ کیے کیا خدا غفور نہ تھا

نامعلوم

اپنے کسی عمل پہ ندامت نہیں مجھے

تھا نیک دل بہت جو گنہ گار مجھ میں تھا

حمایت علی شاعر

گناہ گار تو رحمت کو منہ دکھا نہ سکا

جو بے گناہ تھا وہ بھی نظر ملا نہ سکا

نشور واحدی

پوچھے گا جو خدا تو یہ کہہ دیں گے حشر میں

ہاں ہاں گنہ کیا تری رحمت کے زور پر

نامعلوم

شرکت گناہ میں بھی رہے کچھ ثواب کی

توبہ کے ساتھ توڑیئے بوتل شراب کی

ظہیرؔ دہلوی

وہ کون ہیں جنہیں توبہ کی مل گئی فرصت

ہمیں گناہ بھی کرنے کو زندگی کم ہے

آنند نرائن ملا

مرے خدا نے کیا تھا مجھے اسیر بہشت

مرے گنہ نے رہائی مجھے دلائی ہے

احمد ندیم قاسمی

دیکھا تو سب کے سر پہ گناہوں کا بوجھ تھا

خوش تھے تمام نیکیاں دریا میں ڈال کر

محمد علوی

گنہگاروں میں شامل ہیں گناہوں سے نہیں واقف

سزا کو جانتے ہیں ہم خدا جانے خطا کیا ہے

چکبست برج نرائن

وہ جو رات مجھ کو بڑے ادب سے سلام کر کے چلا گیا

اسے کیا خبر مرے دل میں بھی کبھی آرزوئے گناہ تھی

احمد مشتاق

رحمتوں سے نباہ میں گزری

عمر ساری گناہ میں گزری

شکیل بدایونی

گناہوں سے ہمیں رغبت نہ تھی مگر یا رب

تری نگاہ کرم کو بھی منہ دکھانا تھا

نریش کمار شاد

سنا ہے خواب مکمل کبھی نہیں ہوتے

سنا ہے عشق خطا ہے سو کر کے دیکھتے ہیں

حمیرا راحتؔ

محبت نیک و بد کو سوچنے دے غیر ممکن ہے

بڑھی جب بے خودی پھر کون ڈرتا ہے گناہوں سے

آرزو لکھنوی

خود پرستی خدا نہ بن جائے

احتیاطاً گناہ کرتا ہوں

اکبر حیدرآبادی

مجھے گناہ میں اپنا سراغ ملتا ہے

وگرنہ پارسا و دین دار میں بھی تھا

ساقی فاروقی

عشق میں وہ بھی ایک وقت ہے جب

بے گناہی گناہ ہے پیارے

آنند نرائن ملا

لذت کبھی تھی اب تو مصیبت سی ہو گئی

مجھ کو گناہ کرنے کی عادت سی ہو گئی

بیخود موہانی

روح میں رینگتی رہتی ہے گنہ کی خواہش

اس امربیل کو اک دن کوئی دیوار ملے

ساقی فاروقی

یاد آئے ہیں اف گنہ کیا کیا

ہاتھ اٹھائے ہیں جب دعا کے لئے

ذکی کاکوروی

ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد

یا رب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے

مرزا غالب

محسوس بھی ہو جائے تو ہوتا نہیں بیاں

نازک سا ہے جو فرق گناہ و ثواب میں

نریش کمار شاد

گناہ کر کے بھی ہم رند پاک صاف رہے

شراب پی تو ندامت نے آب آب کیا

جلیل مانک پوری

آرزوؔ جام لو جھجک کیسی

پی لو اور دہشت گناہ گئی

آرزو لکھنوی

خاموش ہو گئیں جو امنگیں شباب کی

پھر جرأت گناہ نہ کی ہم بھی چپ رہے

حفیظ جالندھری

کہے گی حشر کے دن اس کی رحمت بے حد

کہ بے گناہ سے اچھا گناہگار رہا

ہجر ناظم علی خان

یہ کیا کہوں کہ مجھ کو کچھ گناہ بھی عزیز ہیں

یہ کیوں کہوں کہ زندگی ثواب کے لیے نہیں

محبوب خزاں

کیا کیجئے کشش ہے کچھ ایسی گناہ میں

میں ورنہ یوں فریب میں آتا بہار کے

گوپال متل

زاہد امید رحمت حق اور ہجو مئے

پہلے شراب پی کے گناہگار بھی تو ہو

امیر مینائی

گزر رہا ہوں کسی جنت جمال سے میں

گناہ کرتا ہوا نیکیاں کماتا ہوا

اختر رضا سلیمی

نہ رنج ہجرت تھا اور نہ شوق سفر تھا دل میں

سب اپنے اپنے گناہ کا بوجھ ڈھو رہے تھے

جمال احسانی

تعزیر جرم عشق ہے بے صرفہ محتسب

بڑھتا ہے اور ذوق گنہ یاں سزا کے بعد

الطاف حسین حالی

مجھ سے خلا میں بات بھی کرنا نہیں رفیق

ایسے خلا میں بات بھی کرنا ہے اک گناہ

پرنو مشرا تیجس

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے