آنند نرائن ملا
غزل 58
نظم 3
اشعار 37
آئینۂ رنگین جگر کچھ بھی نہیں کیا
کیا حسن ہی سب کچھ ہے نظر کچھ بھی نہیں کیا
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
ایک اک لمحہ میں جب صدیوں کی صدیاں کٹ گئیں
ایسی کچھ راتیں بھی گزری ہیں مری تیرے بغیر
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
خون جگر کے قطرے اور اشک بن کے ٹپکیں
کس کام کے لیے تھے کس کام آ رہے ہیں
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
عشق میں وہ بھی ایک وقت ہے جب
بے گناہی گناہ ہے پیارے
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
ہم نے بھی کی تھیں کوششیں ہم نہ تمہیں بھلا سکے
کوئی کمی ہمیں میں تھی یاد تمہیں نہ آ سکے
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
کتاب 28
تصویری شاعری 2
بھولے سے بھی لب پر سخن اپنا نہیں آتا ہاں ہاں مجھے دنیا میں پنپنا نہیں آتا دل کو سر_الفت بھی ہے رسوائی کا ڈر بھی اس کو ابھی اس آنچ میں تپنا نہیں آتا یہ اشک_مسلسل ہیں محض اشک_مسلسل ہاں نام تمہارا مجھے جپنا نہیں آتا تم اپنے کلیجہ پہ ذرا ہاتھ تو رکھو کیوں اب بھی کہوگے کہ تڑپنا نہیں آتا مے_خانہ میں کچھ پی چکے کچھ جام_بکف ہیں ساغر نہیں آتا ہے تو اپنا نہیں آتا زاہد سے خطاؤں میں تو نکلوں_گا نہ کچھ کم ہاں مجھ کو خطاؤں پہ پنپنا نہیں آتا بھولے تھے انہیں کے لیے دنیا کو کبھی ہم اب یاد جنہیں نام بھی اپنا نہیں آتا دکھ جاتا ہے جب دل تو ابل پڑتے ہیں آنسو ملاؔ کو دکھانے کا تڑپنا نہیں آتا