کشمکش پر اشعار
اپنی فکر اور سوچ کے
دھاروں سے گزر کر کلی طور سے کسی ایک نتیجے تک پہنچنا ایک ناممکن سا عمل ہوتاہے ۔ ہم ہر لمحہ ایک تذبذب اور ایک طرح کی کشمکش کے شکار رہتے ہیں ۔ یہ تذبذب اور کشمکش زندگی کے عام سے معاملات سے لے کر گہرے مذہبی اور فلسفیانہ افکار تک چھائی ہوئی ہوتی ہے ۔ ’’ ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر‘‘ اس کشمکش کی سب سے واضح مثال ہے ۔ ہمارے اس انتخاب میں آپ کو کشمکش کی بے شمار صورتوں کو بہت قریب سے دیکھنے ، محسوس کرنے اور جاننے کا موقع ملے گا ۔
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے
عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر
-
موضوعات : حسناور 2 مزید
مجھے بھی لمحۂ ہجرت نے کر دیا تقسیم
نگاہ گھر کی طرف ہے قدم سفر کی طرف
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
سوال کرتی کئی آنکھیں منتظر ہیں یہاں
جواب آج بھی ہم سوچ کر نہیں آئے
ضبط کرتا ہوں تو گھٹتا ہے قفس میں مرا دم
آہ کرتا ہوں تو صیاد خفا ہوتا ہے
-
موضوع : آہ
سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں
لیکن اس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں
تشریح
اپنے مضمون کے اعتبار سے یہ کافی دلچسپ شعر ہے۔ سودا کے معنی جنون یا پاگل پن۔ چونکہ عشق کا آغاز دل سے ہوتا ہے اور اس کی انتہا جنون ہوتا ہے۔ عشق میں جنون کی حالت وہ ہوتی ہے جب عاشق کا اپنے دماغ پر قابو نہیں ہوتا ہے۔ اس شعر میں فراقؔ نے انسانی نفسیات کےایک نازک پہلو کو مضمون بنایا ہے۔ کہتے ہیں کہ اگرچہ میں نے ترکِ محبت کی ہے۔ یعنی محبت سے کنارہ کیا ہے۔ اور میرے دماغ میں اب جنون کی کیفیت بھی نہیں۔ اور میرے دل میں اب محبوب کی تمنا بھی نہیں۔ مگر عشق کب پلٹ کر آجائے اس بات کا کوئی بھروسا نہیں۔ آدمی اپنی طرف سے یہی کرسکتا ہے کہ عقل کو خلل سے اور دل کو تمنا سے دور رکھے مگر عشق کا کوئی بھروسا نہیں کہ کب پھر بے قابو کر دے۔
شفق سوپوری
یہ کس عذاب میں چھوڑا ہے تو نے اس دل کو
سکون یاد میں تیری نہ بھولنے میں قرار
شوق کہتا ہے پہنچ جاؤں میں اب کعبہ میں جلد
راہ میں بت خانہ پڑتا ہے الٰہی کیا کروں
ہے عجب سی کشمکش دل میں اثرؔ
کس کو بھولیں کس کو رکھیں یاد ہم
پھڑکوں تو سر پھٹے ہے نہ پھڑکوں تو جی گھٹے
تنگ اس قدر دیا مجھے صیاد نے قفس