دیر/حرم پر اشعار
دیر وحرم اور ان سے وابستہ
افراد کے درمیان کی کشمکش اور جھگڑے بہت پرانے ہیں اور روز بروز بھیانک روپ اختیار کرتے جارہے ہیں ۔ شاعروں نے اس موضوع میں ابتدا سے ہی دلچسپی لی ہے اور دیر وحرم کے محدود دائرے میں بند ہوکر سوچنے والے لوگوں کو طنز کا نشانہ بنایا ہے ۔ دیر وحرم پر ہمارے منتخب کردہ ان اشعار کو پڑھ کو آپ کو اندازہ ہوگا کہ شاعری کی دنیا کتنی کھلی ہوئی ، کشادہ اور زندگی سے بھرپور ہے ۔
کیسے بھولے ہوئے ہیں گبر و مسلماں دونوں
دیر میں بت ہے نہ کعبے میں خدا رکھا ہے
کبھی تو دیر و حرم سے تو آئے گا واپس
میں مے کدے میں ترا انتظار کر لوں گا
شوق کہتا ہے پہنچ جاؤں میں اب کعبہ میں جلد
راہ میں بت خانہ پڑتا ہے الٰہی کیا کروں
دیر و کعبہ میں بھٹکتے پھر رہے ہیں رات دن
ڈھونڈھنے سے بھی تو بندوں کو خدا ملتا نہیں
-
موضوع : خدا
یہ ثابت ہے کہ مطلق کا تعین ہو نہیں سکتا
وہ سالک ہی نہیں جو چل کے تا دیر و حرم ٹھہرے
میں دیر و حرم ہو کے ترے کوچے میں پہنچا
دو منزلوں کا پھیر بس اے یار پڑا ہے
کعبہ و دیر میں اب ڈھونڈ رہی ہے دنیا
جو دل و جان میں بستا تھا خدا اور ہی تھا
یہ کہہ دو حضرت ناصح سے گر سمجھانے آئے ہیں
کہ ہم دیر و حرم ہوتے ہوئے مے خانے آئے ہیں
اس طرف دیر ادھر کعبہ کدھر کو جاؤں
اس دوراہے میں کہاں یار رہا کرتا ہے
دیر و حرم کو دیکھ لیا خاک بھی نہیں
بس اے تلاش یار نہ در در پھرا مجھے
مے خانے میں کیوں یاد خدا ہوتی ہے اکثر
مسجد میں تو ذکر مے و مینا نہیں ہوتا
نہیں دیر و حرم سے کام ہم الفت کے بندے ہیں
وہی کعبہ ہے اپنا آرزو دل کی جہاں نکلے
سوئے کعبہ چلوں کہ جانب دیر
اس دوراہے پہ دل بھٹکتا ہے