بہانہ پر اشعار
جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے
اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے
-
موضوعات : جستجواور 1 مزید
جس طرف تو ہے ادھر ہوں گی سبھی کی نظریں
عید کے چاند کا دیدار بہانہ ہی سہی
-
موضوعات : حسناور 2 مزید
بہانے اور بھی ہوتے جو زندگی کے لیے
ہم ایک بار تری آرزو بھی کھو دیتے
-
موضوعات : آرزواور 1 مزید
مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے
مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ
-
موضوعات : زندگیاور 2 مزید
وہ پوچھتا تھا مری آنکھ بھیگنے کا سبب
مجھے بہانہ بنانا بھی تو نہیں آیا
یوں ہی دل نے چاہا تھا رونا رلانا
تری یاد تو بن گئی اک بہانا
-
موضوعات : دلاور 1 مزید
ہمیں تو خیر بکھرنا ہی تھا کبھی نہ کبھی
ہوائے تازہ کا جھونکا بہانہ ہو گیا ہے
بہانہ ڈھونڈتے رہتے ہیں کوئی رونے کا
ہمیں یہ شوق ہے کیا آستیں بھگونے کا
تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں
تجھے ہر بہانے سے ہم دیکھتے ہیں
تلاش ایک بہانہ تھا خاک اڑانے کا
پتہ چلا کہ ہمیں جستجوئے یار نہ تھی
شاعری جھوٹ سہی عشق فسانہ ہی سہی
زندہ رہنے کے لیے کوئی بہانہ ہی سہی
کسی کے ایک اشارے میں کس کو کیا نہ ملا
بشر کو زیست ملی موت کو بہانہ ملا
ستایا آج مناسب جگہ پہ بارش نے
اسی بہانے ٹھہر جائیں اس کا گھر ہے یہاں
سچ تو یہ ہے پھول کا دل بھی چھلنی ہے
ہنستا چہرہ ایک بہانا لگتا ہے
پس غبار بھی اڑتا غبار اپنا تھا
ترے بہانے ہمیں انتظار اپنا تھا
کبھی کبھی عرض غم کی خاطر ہم اک بہانا بھی چاہتے ہیں
جب آنسوؤں سے بھری ہوں آنکھیں تو مسکرانا بھی چاہتے ہیں
اٹھایا اس نے بیڑا قتل کا کچھ دل میں ٹھانا ہے
چبانا پان کا بھی خوں بہانے کا بہانہ ہے
جنوں کا کوئی فسانہ تو ہاتھ آنے دو
میں رو پڑوں گا بہانہ تو ہاتھ آنے دو
خموشی میری لے میں گنگنانا چاہتی ہے
کسی سے بات کرنے کا بہانا چاہتی ہے
کسی کے جور و ستم کا تو اک بہانا تھا
ہمارے دل کو بہرحال ٹوٹ جانا تھا
وہ بے خودی تھی محبت کی بے رخی تو نہ تھی
پہ اس کو ترک تعلق کو اک بہانہ ہوا
اک آدھ بار تو جاں وارنی ہی پڑتی ہے
محبتیں ہوں تو بنتا نہیں بہانہ کوئی
کوئی صدا کوئی آوازۂ جرس ہی سہی
کوئی بہانہ کہ ہم جاں نثار کرتے رہیں
اب کسی اور طرف بات گھمانے والے
میں سمجھتی ہوں تری بات کا مطلب سمجھے
قاصد کو اس نے جاتے ہی رخصت کیا تھا لیک
بد ذات ماندگی کے بہانے سے رہ گیا