تصوف پر اشعار
تصوف اوراس کے معاملات
اردوشاعری کے اہم تریں موضوعات میں سے رہے ہیں ۔ عشق میں فنائیت کا تصوردراصل عشق حقیقی کا پیدا کردہ ہے ۔ ساتھ ہی زندگی کی عدم ثباتی ، انسانوں کے ساتھ رواداری اورمذہبی شدت پسندی کے مقابلے میں ایک بہت لچکداررویے نے شاعری کی اس جہت کو بہت ثروت مند بنایا ہے ۔ دیکھنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ تصوف کے مضامین کو شعرا نے کس فنی ہنرمندی اورتخلیقی احساس کے ساتھ خالص شعر کی شکل میں پیش کیا ہے ۔ جدید دورکی اس تاریکی میں اس انتخاب کی معنویت اور بڑھ جاتی ہے۔
بس جان گیا میں تری پہچان یہی ہے
تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
-
موضوع : مشہور اشعار
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
-
موضوعات : دیداراور 1 مزید
جگ میں آ کر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
-
موضوع : خدا
ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے
تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے
زحال مسکیں مکن تغافل دوراے نیناں بنائے بتیاں
کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں
-
موضوعات : فلمی اشعاراور 1 مزید
جان سے ہو گئے بدن خالی
جس طرف تو نے آنکھ بھر دیکھا
-
موضوع : آنکھ
خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی
-
موضوعات : بے خبریاور 1 مزید
ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے
تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں
تجھے ہر بہانے سے ہم دیکھتے ہیں
-
موضوع : بہانہ
شبان ہجراں دراز چوں زلف روز وصلت چو عمر کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
-
موضوعات : جدائیاور 2 مزید
دریا سے موج موج سے دریا جدا نہیں
ہم سے جدا نہیں ہے خدا اور خدا سے ہم
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی
لایا ہے مرا شوق مجھے پردے سے باہر
میں ورنہ وہی خلوتیٔ راز نہاں ہوں
-
موضوعات : میر تقی میراور 1 مزید
فریب جلوہ کہاں تک بروئے کار رہے
نقاب اٹھاؤ کہ کچھ دن ذرا بہار رہے
-
موضوع : استقبال
کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے
پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے
تو ہی ظاہر ہے تو ہی باطن ہے
تو ہی تو ہے تو میں کہاں تک ہوں
تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا
تشریح
بلاشبہ یہ شعر حمدیہ ہے گرچہ یہ میر کی ایک غزل کا مطلع ہے ۔ سرسری طور پر اس شعر کا مفہوم اس قدر ابھرتا ہے کہ جو کچھ ضوفشانی ہے وہ سب خدا کے حسن سے مستعار ہے ، یہاں تک کی سورج کی روشنی بھی خدا کے حسن سے قائم ہے ۔
مگر بات محض اتنی نہیں ہے ۔ اس شعر میں "تھا ، تھا" ردیف وارد ہؤا ہے جو مطلقاً ماضی کہ طرف اشارہ کرتا ہے مگر ہم نے جو مفہوم اس شعر کا بیان کیا ہے وہ حالیہ لب ولہجے میں ہے ۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ ردیف ہی ایسا ہے سو یہ "تنگنائے غزل" کا معاملہ ہے مگر بات یہ ہے کہ یہ تو مطلعے کا شعر ہے، میر کے لیے کیا مشکل تھا کہ وہ اسے "ہے، ہے" میں بدل دیتے ۔.؟ لیکن بات صرف ردیف تک نہیں ہے، دھیان دیں تو میر نے یہ شعر "تھا" سے ہی شروع کیا ہے ۔ تھوڑی دیر کیلئے اس شعر میں وارد سارے "تھا" کو ہے سے بدل دیں تو شعر کچھ یوں ہوگا۔
ہے مستعار حسن سے اس کے جو نور ہے
خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور ہے۔
اب دونوں شعر پڑھیں تو تبدیل شدہ شعر انتہائی پھیکا سا محسوس ہوگا ۔ کیونکہ حالیہ لب ولہجے میں رپورٹنگ کی بو آتی ہے اؤر کوئی بھی تخلیقی ادب ، ادب ہو ہی نہیں سکتا اگر وہ محض رپورٹنگ ہو کر رہ جائے ۔ اس کے علاوہ دوسری بات یہ ہے کہ "تھا ، تھا" سے شعر کے حسن میں اضافہ ہوگیا ہے وہ یوں کہ "ہے" کے مقابلے میں "تھا" میں حسی دلچسپی کا عنوان زیادہ ہے ۔ اس کو یوں کہیں کہ کہانی کا بیانیہ (محمد حسن کی زبان میں کہانیہ) کبھی "ہے" سے شروع نہیں ہوتا اور اس کے پیچھے بھی محض یہی حسی حسن ہے جو دلچسپی کا زبردست عنصر ہے ۔ اس بات کی تائید ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی کتاب "اردو شاعری کا فنی ارتقاء" میں شامل مسعود حسین خان کا ایک مضمون "غزل کا فن" سے بھی ہوتی ہے ، جس میں قافیہ و ردیف کے حسی حسن پر کافی دلچسپ گفتگو ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ مفہوم وہی ہوگا جو اوپر درج ہے مگر "تھا" کے ذریعے آپ کے حس کو تحریک دی گئی ہے ۔
اس شعر کا بنیادی محور "حسن" ہے ۔ پہلا سوال تو یہی بنتا ہے کہ حسن کیا ہے ۔؟ جواباً کہہ سکتے ہیں کہ حِسی معیار ہے جس کا تعیّن عموماً بصری وسیلے سے ہوتا ہے مگر یہ بات بھی کچھ معروضی نہیں ۔ ایک مفہوم ہے جو معنوی ہے مگر وہ اؤر غیر معروضی ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ حسن بیشتر اسی سے وابستہ ہے ۔ حسی وسایل سے تو کسی قدر حسن کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے مگر معنوی وسایل سے اؤر مشکل ہے کیونکہ یہ مابعد الطبیعیات کا حصہ ہے۔ ان دونوں وسایل کا معاملہ یہ ہے کہ ہر شخص کا حسن ، اندازہ حسن اؤر معیار حسن سب الگ ہوگا ، اسی لیے معروضیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ بالآخر تھک ہار کر آپ کو وہی بات قبول کرنی ہوگی کہ حسن ناظر اؤر منظور کے درمیان کا معاملہ ہے ، ناظر صرف عارف ہو سکتا ہے اؤر وہ بھی شاید مکمل نہیں ۔ یہی وہ گوشہ ہے جس سے اس شعر میں تصوف کا پہلو باہر آتا ہے ۔ ایک بات تو صاف ہے کہ حسن کچھ بھی ہو مگر ایک ایسی چیز ہے جو آپ کو اپنے گرفت میں لے لیتی ہے ، آپ اس سے نظر ہٹا نہیں سکتے یا اس سے نظر ملا نہیں سکتے ۔ اس شعر سے جو حسن کا قالب ابھرتا ہے اس میں چمک ، شفافیت ، خیرہ کنی ، روشنی سب کچھ شامل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں نور کے مستعار ہونے کا جواز فراہم ہوجاتا ہے۔
نور ، ظلمت کی ضد ہے ۔ روشنی جو کہ تاریکی کا مد مقابل ہے ۔ اگر یہاں اللہ نور السماوت والارض کو ساتھ ملا کر مفہوم کشید کیا جائے تو نور کو سمجھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا ۔ بایں طرح نور بمعنی نور والا ہوگا کیونکہ روشنی کے انتہائی قوت کے اظہار کے لیے نور والے کو نور کہہ دیا جاتا ہے ۔ یہ معنی اس لیے مناسب ہے کہ اسی سیاق میں آگے خورشید بھی آیا ہؤا ہے جو نہ کہ روشنی کی انتہائی قوت کا مظہر ہے بلکہ روشنی والا بھی ہے ۔
عاریۃً یا ادھار لی ہوئی کسی بھی چیز کو مستعار کہہ سکتے ہیں ۔ استعارے کو استعارہ اسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ وہاں کسی نہ کسی لفظ سے معنی ادھار لیے جاتے ہیں ۔مثلاً کسی کو "بہادر" بتانے کے لیے "شیر" کو ، اور کسی کو "خوبصورت بتانے کے لیے "چاند" کو مستعار لے لیا جاتا ہے ۔ مفہوم یہ ہؤا کہ جو کچھ بھی روشنی ہے سب قرض پر ہے حتی کہ سورج کہ بھی جس کے پاس نہ صرف روشنی ہے بلکہ روشنی پھیلانے والا بھی ہے ۔ لفظ مستعار سے ایک لطیف اشارہ یہ بھی ہے کہ یہ نور آپ کے پاس جب تک ہے جب تک دینے والا واپس نہیں لے لیتا ۔ یہ روشنی کا سارا کاروبار ایک تقاضے تک قائم ہے جس دن تقاضا ہؤا سب کچھ ختم ہوجائے گا ۔
حسن ، خورشید، ذرہ اؤر ظہور سے غضب کا لفظی دروبست قائم کیا گیا ہے ۔ حسن ایک کل ہوا ، ذرہ ایک جز اؤر دونوں کی ترکیب سے منطقی زبان میں ایک طرح کا عموم خصوص من وجہ قائم ہؤا ۔ اب دیکھیے کہ خورشید جو بذات خود ایک بہت بڑے روشنی کا منبع ہے اس کو نگیٹ کرکے اس کی روشنی کی وجہ خدا کے حسن کے ایک ذرے کو بتایا ۔ "خورشید میں بھی" کہہ کر اگر سورج کی روشنی اؤر اس کی عظمت کا اعتراف تھا تو وجہ نور خدا کے حسن کا ذرہ بتا کر اس کی عظمت کو بونا بھی دکھا دیا گیا ، مگر دونوں پہلوؤں کو جمع کرنے کا مفہوم صرف اتنا ہے کہ سورج کی اتنی زیادہ روشنی جب تک ہے جب تک اس میں حسن کا یہ معمولی ذرہ ظاہر ہے ۔ ظہور اپنے آپ میں یہ مفہوم لیے ہوئے ہے کہ یہ ذرہ کہیں اِدھر اُدھر، اوپر نیچے، دائیں بائیں سے نہیں شامل ہے بلکہ اس کے اندر تہہ میں شامل ہے اؤر وہیں سے نمودار ہو رہا ہے ۔
درج بالا سطور میں تصوف کے ایک گوشے کا ذکر ہوا ہے ۔ حسن ، نور اؤر ظہور کے پیکر سے ابھرنے والے معنوی مفہوم میں تصوف کا وہ نقش صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے جو متصوفانہ اعتقادات کے حساب سے سب کچھ عکس ہے اور ظاہر ہے عکس کے لیے چمک، روشنی اؤر کسی منبع سے اس کا نمایاں ہونا ضروری ہے ۔ خواہ ظاہری ہو معنوی حسن کے اندر ایک طرح کی چمک شفافیت ، نور کے اندر روشنی ، اجالا اؤر ظہور کے اندر ایک طرح کی نموداری موجود ہے ۔
سوال یہ بھی ہے کہ میر کا یہ شعر محبوب حقیقی ہی کے مفہوم کے اردگرد کیوں سمجھا جائے ، محبوب مجازی بھی تو ہوسکتا ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیسے ہو سکتا ہے ۔؟ جواباً آپ کہہ سکتے ہیں کہ "اُس" ضمیر کا مرجع آپ محبوب مجازی کو بنائیں ۔ تو جواب الجواب یہ ہوگا کہ "اُس" اشارہ بعید کے لیے ہے جو کہ آپ کے محبوب مجازی کے لیے نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ کسی طور محبوب حقیقی سے زیادہ فاصلے پر نہیں ہوسکتا ۔ تو پھر آپ کہیں گے کہ اگر معاملہ قریب اؤر بعید کا ہے تو ضروری ہے کہ "اُس" پڑھیں، "اِس" بھی تو پڑھ سکتے ہیں ۔ لیکن ایسی صورت میں شعر کا اگر کوئی مفہوم نکلے گا تو وہ محض مبالغے کا ہوگا مگر پھر بھی بات نہیں بنے گی ، وہ اس لیے کہ دوسرے مصرعے میں واقع "اس ہی کا" کا کیا جواب دیں گے ۔ یہ باقاعدہ حصر پیدا کرنے کے لیے لایا گیا ہے جو بتا رہا ہے کہ "اُس" ضمیر کا مرجع محبوب حقیقی کے سواء کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا ہے۔
میر کا اسی مفہوم میں ایک اؤر شعر جو بات کو مزید واضح کر دے گا۔
اس کے فروغ حسن سے جھمکے ہیں سب میں نور
شمع حرم ہو یا کہ دیا سومنات کا
ذرا سوچئے محبوب مجازی کو شمع حرم اؤر سومنات کے دیے سے کیا علاقہ۔؟ اسی طرح اگر محض محبوب مجازی کے حسن کی بات ہے تو اس کے لیے موزوں ترین شئی چاند ہے نہ کہ سورج۔
خیر آخری بات جسے فاروقی صاحب نے ثابت کرنے کے لیے جی جان لگا دی ہے کہ میر محض سوز گداز کے شاعر نہیں بلکہ شورانگیز شاعر بھی تھے ، اس شعر کے بنت میں اُس شور کی مکمل جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔
سیف ازہر
دل ہر قطرہ ہے ساز انا البحر
ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا
کریں ہم کس کی پوجا اور چڑھائیں کس کو چندن ہم
صنم ہم دیر ہم بت خانہ ہم بت ہم برہمن ہم