Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دیدار پر اشعار

ہمارا یہ انتخاب عاشق

کی معشوق کے دیدار کی خواہش کا بیان ہے ۔ یہ خواہش جس گہری بے چینی کو جنم دیتی ہے اس سے ہم سب گزرے بھی ہیں لیکن اس تجربے کو ایک بڑی سطح پر جاننے اور محسوس کرنے کیلئے اس شعری متن سے گزرنا ضروری ہے ۔

کچھ نظر آتا نہیں اس کے تصور کے سوا

حسرت دیدار نے آنکھوں کو اندھا کر دیا

حیدر علی آتش

الٰہی کیا کھلے دیدار کی راہ

ادھر دروازے بند آنکھیں ادھر بند

لالہ مادھو رام جوہر

سنا ہے حشر میں ہر آنکھ اسے بے پردہ دیکھے گی

مجھے ڈر ہے نہ توہین جمال یار ہو جائے

جگر مراد آبادی

اس قمر کو کبھی تو دیکھیں گے

تیس دن ہوتے ہیں مہینے کے

لالہ مادھو رام جوہر

ہٹاؤ آئنہ امیدوار ہم بھی ہیں

تمہارے دیکھنے والوں میں یار ہم بھی ہیں

امیر مینائی

ترا دیدار ہو حسرت بہت ہے

چلو کہ نیند بھی آنے لگی ہے

ساجد پریمی

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی

ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی

علامہ اقبال

دیکھا نہیں وہ چاند سا چہرا کئی دن سے

تاریک نظر آتی ہے دنیا کئی دن سے

جنید حزیں لاری

اس کو دیکھا تو یہ محسوس ہوا

ہم بہت دور تھے خود سے پہلے

محمود شام

وہ دشمنی سے دیکھتے ہیں دیکھتے تو ہیں

میں شاد ہوں کہ ہوں تو کسی کی نگاہ میں

امیر مینائی

کیوں جل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر

جلتا ہوں اپنی طاقت دیدار دیکھ کر

مرزا غالب

مرا جی تو آنکھوں میں آیا یہ سنتے

کہ دیدار بھی ایک دن عام ہوگا

میر تقی میر

آپ ادھر آئے ادھر دین اور ایمان گئے

عید کا چاند نظر آیا تو رمضان گئے

شجاع خاور

کاسۂ چشم لے کے جوں نرگس

ہم نے دیدار کی گدائی کی

میر تقی میر

نہ وہ صورت دکھاتے ہیں نہ ملتے ہیں گلے آ کر

نہ آنکھیں شاد ہوتیں ہیں نہ دل مسرور ہوتا ہے

لالہ مادھو رام جوہر

جناب کے رخ روشن کی دید ہو جاتی

تو ہم سیاہ نصیبوں کی عید ہو جاتی

انور شعور

دیدار کی طلب کے طریقوں سے بے خبر

دیدار کی طلب ہے تو پہلے نگاہ مانگ

آزاد انصاری

کہتے ہیں عید ہے آج اپنی بھی عید ہوتی

ہم کو اگر میسر جاناں کی دید ہوتی

غلام بھیک نیرنگ

اب اور دیر نہ کر حشر برپا کرنے میں

مری نظر ترے دیدار کو ترستی ہے

غلام مرتضی راہی

جیسے جیسے در دل دار قریب آتا ہے

دل یہ کہتا ہے کہ پہنچوں میں نظر سے پہلے

جلیل مانک پوری

آئینہ کبھی قابل دیدار نہ ہووے

گر خاک کے ساتھ اس کو سروکار نہ ہووے

عشق اورنگ آبادی

دیکھنے کے لیے سارا عالم بھی کم

چاہنے کے لیے ایک چہرا بہت

اسعد بدایونی

دیکھنا حسرت دیدار اسے کہتے ہیں

پھر گیا منہ تری جانب دم مردن اپنا

خواجہ محمد وزیر

اب وہی کرنے لگے دیدار سے آگے کی بات

جو کبھی کہتے تھے بس دیدار ہونا چاہئے

ظفر اقبال

اٹھ اے نقاب یار کہ بیٹھے ہیں دیر سے

کتنے غریب دیدۂ پر نم لیے ہوئے

جلیل مانک پوری

تری پہلی دید کے ساتھ ہی وہ فسوں بھی تھا

تجھے دیکھ کر تجھے دیکھنا مجھے آ گیا

اقبال کوثر

تم اپنے چاند تارے کہکشاں چاہے جسے دینا

مری آنکھوں پہ اپنی دید کی اک شام لکھ دینا

زبیر رضوی

حاصل اس مہ لقا کی دید نہیں

عید ہے اور ہم کو عید نہیں

بیخود بدایونی

ٹوٹیں وہ سر جس میں تیری زلف کا سودا نہیں

پھوٹیں وہ آنکھیں کہ جن کو دید کا لپکا نہیں

حقیر

میں کامیاب دید بھی محروم دید بھی

جلووں کے اژدحام نے حیراں بنا دیا

اصغر گونڈوی

دردؔ کے ملنے سے اے یار برا کیوں مانا

اس کو کچھ اور سوا دید کے منظور نہ تھا

خواجہ میر درد

آنکھ اٹھا کر اسے دیکھوں ہوں تو نظروں میں مجھے

یوں جتاتا ہے کہ کیا تجھ کو نہیں ڈر میرا

جرأت قلندر بخش

تو سامنے ہے تو پھر کیوں یقیں نہیں آتا

یہ بار بار جو آنکھوں کو مل کے دیکھتے ہیں

احمد فراز

جو اور کچھ ہو تری دید کے سوا منظور

تو مجھ پہ خواہش جنت حرام ہو جائے

حسرتؔ موہانی

میری آنکھیں اور دیدار آپ کا

یا قیامت آ گئی یا خواب ہے

آسی غازی پوری

آفریں تجھ کو حسرت دیدار

چشم تر سے زباں کا کام لیا

جلیل مانک پوری

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے