دیدار پر اشعار
ہمارا یہ انتخاب عاشق
کی معشوق کے دیدار کی خواہش کا بیان ہے ۔ یہ خواہش جس گہری بے چینی کو جنم دیتی ہے اس سے ہم سب گزرے بھی ہیں لیکن اس تجربے کو ایک بڑی سطح پر جاننے اور محسوس کرنے کیلئے اس شعری متن سے گزرنا ضروری ہے ۔
کچھ نظر آتا نہیں اس کے تصور کے سوا
حسرت دیدار نے آنکھوں کو اندھا کر دیا
الٰہی کیا کھلے دیدار کی راہ
ادھر دروازے بند آنکھیں ادھر بند
سنا ہے حشر میں ہر آنکھ اسے بے پردہ دیکھے گی
مجھے ڈر ہے نہ توہین جمال یار ہو جائے
-
موضوع : نظارہ
اس قمر کو کبھی تو دیکھیں گے
تیس دن ہوتے ہیں مہینے کے
ہٹاؤ آئنہ امیدوار ہم بھی ہیں
تمہارے دیکھنے والوں میں یار ہم بھی ہیں
ترا دیدار ہو حسرت بہت ہے
چلو کہ نیند بھی آنے لگی ہے
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
-
موضوعات : تصوفاور 1 مزید
دیکھا نہیں وہ چاند سا چہرا کئی دن سے
تاریک نظر آتی ہے دنیا کئی دن سے
اس کو دیکھا تو یہ محسوس ہوا
ہم بہت دور تھے خود سے پہلے
وہ دشمنی سے دیکھتے ہیں دیکھتے تو ہیں
میں شاد ہوں کہ ہوں تو کسی کی نگاہ میں
کیوں جل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر
جلتا ہوں اپنی طاقت دیدار دیکھ کر
-
موضوعات : حسناور 1 مزید
مرا جی تو آنکھوں میں آیا یہ سنتے
کہ دیدار بھی ایک دن عام ہوگا
کاسۂ چشم لے کے جوں نرگس
ہم نے دیدار کی گدائی کی
نہ وہ صورت دکھاتے ہیں نہ ملتے ہیں گلے آ کر
نہ آنکھیں شاد ہوتیں ہیں نہ دل مسرور ہوتا ہے
دیدار کی طلب کے طریقوں سے بے خبر
دیدار کی طلب ہے تو پہلے نگاہ مانگ
کہتے ہیں عید ہے آج اپنی بھی عید ہوتی
ہم کو اگر میسر جاناں کی دید ہوتی
-
موضوع : عید
اب اور دیر نہ کر حشر برپا کرنے میں
مری نظر ترے دیدار کو ترستی ہے
جیسے جیسے در دل دار قریب آتا ہے
دل یہ کہتا ہے کہ پہنچوں میں نظر سے پہلے
آئینہ کبھی قابل دیدار نہ ہووے
گر خاک کے ساتھ اس کو سروکار نہ ہووے
-
موضوع : آئینہ
دیکھنے کے لیے سارا عالم بھی کم
چاہنے کے لیے ایک چہرا بہت
-
موضوعات : عشقاور 1 مزید
اب وہی کرنے لگے دیدار سے آگے کی بات
جو کبھی کہتے تھے بس دیدار ہونا چاہئے
اٹھ اے نقاب یار کہ بیٹھے ہیں دیر سے
کتنے غریب دیدۂ پر نم لیے ہوئے
-
موضوع : نقاب
تری پہلی دید کے ساتھ ہی وہ فسوں بھی تھا
تجھے دیکھ کر تجھے دیکھنا مجھے آ گیا
تم اپنے چاند تارے کہکشاں چاہے جسے دینا
مری آنکھوں پہ اپنی دید کی اک شام لکھ دینا
حاصل اس مہ لقا کی دید نہیں
عید ہے اور ہم کو عید نہیں
-
موضوع : عید
ٹوٹیں وہ سر جس میں تیری زلف کا سودا نہیں
پھوٹیں وہ آنکھیں کہ جن کو دید کا لپکا نہیں
میں کامیاب دید بھی محروم دید بھی
جلووں کے اژدحام نے حیراں بنا دیا
دردؔ کے ملنے سے اے یار برا کیوں مانا
اس کو کچھ اور سوا دید کے منظور نہ تھا
آنکھ اٹھا کر اسے دیکھوں ہوں تو نظروں میں مجھے
یوں جتاتا ہے کہ کیا تجھ کو نہیں ڈر میرا
تو سامنے ہے تو پھر کیوں یقیں نہیں آتا
یہ بار بار جو آنکھوں کو مل کے دیکھتے ہیں
جو اور کچھ ہو تری دید کے سوا منظور
تو مجھ پہ خواہش جنت حرام ہو جائے
میری آنکھیں اور دیدار آپ کا
یا قیامت آ گئی یا خواب ہے
آفریں تجھ کو حسرت دیدار
چشم تر سے زباں کا کام لیا