نقاب پر اشعار
نقاب کو کلاسیکی شاعری
میں بہت دلچسپ طریقوں سے موضوع بنایا گیا ہے ۔ محبوب ہے کہ اپنے حسن کو نقاب سے چھائے رہتا ہے اور عاشق دیدار کو ترستا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نقاب بھی محبوب کے حسن کو چھپا نہیں پاتا اوراسے چھپائے رکھنے کی تمام کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں ۔ ایسے اور بھی مزےدار گوشے نقاب پر کی جانے والی شاعری کے اس انتخاب میں ہیں ۔ آپ پڑھئے اور لطف لیجئے ۔
دیکھتا میں اسے کیوں کر کہ نقاب اٹھتے ہی
بن کے دیوار کھڑی ہو گئی حیرت میری
اس دور میں انسان کا چہرہ نہیں ملتا
کب سے میں نقابوں کی تہیں کھول رہا ہوں
-
موضوع : انسان
گو ہوائے گلستاں نے مرے دل کی لاج رکھ لی
وہ نقاب خود اٹھاتے تو کچھ اور بات ہوتی
اتنے حجابوں پر تو یہ عالم ہے حسن کا
کیا حال ہو جو دیکھ لیں پردہ اٹھا کے ہم
نقاب کہتی ہے میں پردۂ قیامت ہوں
اگر یقین نہ ہو دیکھ لو اٹھا کے مجھے
تم جو پردے میں سنورتے ہو نتیجہ کیا ہے
لطف جب تھا کہ کوئی دیکھنے والا ہوتا
کسی میں تاب کہاں تھی کہ دیکھتا ان کو
اٹھی نقاب تو حیرت نقاب ہو کے رہی
-
موضوع : حسن
ابھی رات کچھ ہے باقی نہ اٹھا نقاب ساقی
ترا رند گرتے گرتے کہیں پھر سنبھل نہ جائے
-
موضوعات : راتاور 2 مزید
خول چہروں پہ چڑھانے نہیں آتے ہم کو
گاؤں کے لوگ ہیں ہم شہر میں کم آتے ہیں
-
موضوع : گاؤں
ہے دیکھنے والوں کو سنبھلنے کا اشارا
تھوڑی سی نقاب آج وہ سرکائے ہوئے ہیں
دیکھ کر ہم کو نہ پردے میں تو چھپ جایا کر
ہم تو اپنے ہیں میاں غیر سے شرمایا کر
-
موضوع : شرم
جو پردوں میں خود کو چھپائے ہوئے ہیں
قیامت وہی تو اٹھائے ہوئے ہیں
مبہم تھے سب نقوش نقابوں کی دھند میں
چہرہ اک اور بھی پس چہرہ ضرور تھا
دیدار سے پہلے ہی کیا حال ہوا دل کا
کیا ہوگا جو الٹیں گے وہ رخ سے نقاب آخر
اگرچہ وہ بے پردہ آئے ہوئے ہیں
چھپانے کی چیزیں چھپائے ہوئے ہیں
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
تیرے قربان قمرؔ منہ سر گلزار نہ کھول
صدقے اس چاند سی صورت پہ نہ ہو جائے بہار
-
موضوعات : بہاراور 2 مزید
آنکھوں کو دیکھنے کا سلیقہ جب آ گیا
کتنے نقاب چہرۂ اسرار سے اٹھے
اٹھ اے نقاب یار کہ بیٹھے ہیں دیر سے
کتنے غریب دیدۂ پر نم لیے ہوئے
-
موضوع : دیدار
نقاب رخ اٹھایا جا رہا ہے
وہ نکلی دھوپ سایہ جا رہا ہے
سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ
-
موضوعات : جگجیت سنگھاور 2 مزید
تصور میں بھی اب وہ بے نقاب آتے نہیں مجھ تک
قیامت آ چکی ہے لوگ کہتے ہیں شباب آیا
آنکھیں خدا نے دی ہیں تو دیکھیں گے حسن یار
کب تک نقاب رخ سے اٹھائی نہ جائے گی
-
موضوع : آنکھ
الٹی اک ہاتھ سے نقاب ان کی
ایک سے اپنے دل کو تھام لیا
-
موضوع : دل
ہزار چہرے ہیں موجود آدمی غائب
یہ کس خرابے میں دنیا نے لا کے چھوڑ دیا
-
موضوعات : آدمیاور 1 مزید
نقاب اٹھاؤ تو ہر شے کو پاؤ گے سالم
یہ کائنات بطور حجاب ٹوٹتی ہے
چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب حسیں رخ سے تم الٹ دینا
ہم اپنے دیدہ و دل کا غرور دیکھیں گے
اسی امید پر تو جی رہے ہیں ہجر کے مارے
کبھی تو رخ سے اٹھے گی نقاب آہستہ آہستہ
-
موضوع : امید