Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آدمی پر اشعار

ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی

جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا

ندا فاضلی

ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانئے گا وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا

جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا

بہادر شاہ ظفر

یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں

مجھے گلاس بڑے دے شراب کم کر دے

بشیر بدر

اسی لئے تو یہاں اب بھی اجنبی ہوں میں

تمام لوگ فرشتے ہیں آدمی ہوں میں

بشیر بدر

وہ کون تھا جو دن کے اجالے میں کھو گیا

یہ چاند کس کو ڈھونڈنے نکلا ہے شام سے

عادل منصوری

اتفاق اپنی جگہ خوش قسمتی اپنی جگہ

خود بناتا ہے جہاں میں آدمی اپنی جگہ

انور شعور

میری رسوائی کے اسباب ہیں میرے اندر

آدمی ہوں سو بہت خواب ہیں میرے اندر

اسعد بدایونی

آدمی آدمی سے ملتا ہے

دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

جگر مراد آبادی

سمجھے گا آدمی کو وہاں کون آدمی

بندہ جہاں خدا کو خدا مانتا نہیں

صبا اکبرآبادی

گرجا میں مندروں میں اذانوں میں بٹ گیا

ہوتے ہی صبح آدمی خانوں میں بٹ گیا

ندا فاضلی

جانور آدمی فرشتہ خدا

آدمی کی ہیں سیکڑوں قسمیں

الطاف حسین حالی

سب سے پر امن واقعہ یہ ہے

آدمی آدمی کو بھول گیا

جون ایلیا

بھیڑ تنہائیوں کا میلا ہے

آدمی آدمی اکیلا ہے

صبا اکبرآبادی

راہ میں بیٹھا ہوں میں تم سنگ رہ سمجھو مجھے

آدمی بن جاؤں گا کچھ ٹھوکریں کھانے کے بعد

بیخود دہلوی

ہزار چہرے ہیں موجود آدمی غائب

یہ کس خرابے میں دنیا نے لا کے چھوڑ دیا

شہزاد احمد

میں آدمی ہوں کوئی فرشتہ نہیں حضور

میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا

ساغر صدیقی

میں ترے در کا بھکاری تو مرے در کا فقیر

آدمی اس دور میں خوددار ہو سکتا نہیں

اقبال ساجد

فرشتہ ہے تو تقدس تجھے مبارک ہو

ہم آدمی ہیں تو عیب و ہنر بھی رکھتے ہیں

دل ایوبی

آدمی کا آدمی ہر حال میں ہمدرد ہو

اک توجہ چاہئے انساں کو انساں کی طرف

حفیظ جونپوری

میں آخر آدمی ہوں کوئی لغزش ہو ہی جاتی ہے

مگر اک وصف ہے مجھ میں دل آزاری نہیں کرتا

عاصی کرنالی

زندگی سے زندگی روٹھی رہی

آدمی سے آدمی برہم رہا

بقا بلوچ

نہ جانے باہر بھی کتنے آسیب منتظر ہوں

ابھی میں اندر کے آدمی سے ڈرا ہوا ہوں

آنس معین

خوش حال گھر شریف طبیعت سبھی کا دوست

وہ شخص تھا زیادہ مگر آدمی تھا کم

ندا فاضلی

آدمی کیا وہ نہ سمجھے جو سخن کی قدر کو

نطق نے حیواں سے مشت خاک کو انساں کیا

حیدر علی آتش

عجیب شخص تھا خود اپنے دکھ بناتا تھا

دل و دماغ پہ کچھ دن اثر رہا اس کا

شیوندرا سنگھ

خدا بدل نہ سکا آدمی کو آج بھی ہوشؔ

اور اب تک آدمی نے سیکڑوں خدا بدلے

ہوش جونپوری

ملتا ہے آدمی ہی مجھے ہر مقام پر

اور میں ہوں آدمی کی طلب سے بھرا ہوا

آفتاب حسین

روپ رنگ ملتا ہے خد و خال ملتے ہیں

آدمی نہیں ملتا آدمی کے پیکر میں

خوشبیر سنگھ شادؔ

اتنا بے آسرا نہیں ہوں میں

آدمی ہوں خدا نہیں ہوں میں

پرویز ساحر

ٹٹولو پرکھ لو چلو آزما لو

خدا کی قسم با خدا آدمی ہوں

شمیم عباس

حسن اخلاص ہی نہیں ورنہ

آدمی آدمی تو آج بھی ہے

شوکت پردیسی

ابھی فرق ہے آدمی آدمی میں

ابھی دور ہے آدمی آدمی سے

شوق اثر رامپوری

آدمی ہوں وصف پیغمبر نہ مانگ

مجھ سے میرے دوست میرا سر نہ مانگ

طاہر فراز

مرا غزال کہ وحشت تھی جس کو سائے سے

لپٹ گیا مرے سینے سے آدمی کی طرح

سجاد باقر رضوی

روئے زمیں پہ چار عرب میرے عکس ہیں

ان میں سے میں بھی ایک ہوں چاہے کہیں ہوں میں

رئیس فروغ

اے غبار خواہش یک عمر اپنی راہ لے

اس گلی میں تجھ سے پہلے اک جہاں موجود ہے

عزم بہزاد
بولیے