دوست پر اشعار
شاعری ،یا یہ کہاجائے
کہ اچھا تخلیقی ادب ہم کو ہمارے عام تجربات اور تصورات سے الگ ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے وہ ہمیں ان منطقوں سے آگاہ کرتا ہے جو ہماری روزمرہ کی زندگی سے الگ ہوتے ہیں ۔ کیا آپ دوست اور دوستی کے بارے ان باتوں سے واقف ہیں جن کو یہ شاعری موضوع بناتی ہے ؟ دوست ، اس کی فطرت اس کے جذبات اور ارادوں کا یہ شعری بیانہ آپ کیلئے حیرانی کا باعث ہوگا ۔ اسے پڑھئے اور اپنے آس پاس پھیلے ہوئے دوستوں کو نئے سرے سے دیکھنا شروع کیجئے ۔
دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں
-
موضوعات : امناور 4 مزید
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔ
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا
جونؔ یاروں کے یار تھے ہم تو
دوستی جب کسی سے کی جائے
دشمنوں کی بھی رائے لی جائے
-
موضوعات : دشمناور 2 مزید
وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا
جو پچھلی رات سے یاد آ رہا ہے
-
موضوعات : یاداور 1 مزید
دشمنوں سے پیار ہوتا جائے گا
دوستوں کو آزماتے جائیے
-
موضوعات : دشمناور 1 مزید
دل ابھی پوری طرح ٹوٹا نہیں
دوستوں کی مہربانی چاہئے
-
موضوعات : دلاور 1 مزید
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
دوستی عام ہے لیکن اے دوست
دوست ملتا ہے بڑی مشکل سے
تیری باتیں ہی سنانے آئے
دوست بھی دل ہی دکھانے آئے
داغ دنیا نے دیے زخم زمانے سے ملے
ہم کو تحفے یہ تمہیں دوست بنانے سے ملے
دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں
دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پہ پہلا تیر کون
یوں لگے دوست ترا مجھ سے خفا ہو جانا
جس طرح پھول سے خوشبو کا جدا ہو جانا
دوستوں کو بھی ملے درد کی دولت یا رب
میرا اپنا ہی بھلا ہو مجھے منظور نہیں
مجھے دوست کہنے والے ذرا دوستی نبھا دے
یہ مطالبہ ہے حق کا کوئی التجا نہیں ہے
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
نہ اداس ہو نہ ملال کر کسی بات کا نہ خیال کر
کئی سال بعد ملے ہیں ہم تیرے نام آج کی شام ہے
-
موضوعات : شاماور 1 مزید
پتھر تو ہزاروں نے مارے تھے مجھے لیکن
جو دل پہ لگا آ کر اک دوست نے مارا ہے
دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا
وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا
مسیح و خضر کی عمریں نثار ہوں اس پر
وہ ایک لمحہ جو یاروں کے درمیاں گزرے
دشمنوں کی جفا کا خوف نہیں
دوستوں کی وفا سے ڈرتے ہیں
-
موضوعات : دشمناور 1 مزید
اے دوست میں خاموش کسی ڈر سے نہیں تھا
قائل ہی تری بات کا اندر سے نہیں تھا
عقل کہتی ہے دوبارہ آزمانا جہل ہے
دل یہ کہتا ہے فریب دوست کھاتے جائیے
-
موضوعات : دلاور 3 مزید
پرانے یار بھی آپس میں اب نہیں ملتے
نہ جانے کون کہاں دل لگا کے بیٹھ گیا
بہاروں کی نظر میں پھول اور کانٹے برابر ہیں
محبت کیا کریں گے دوست دشمن دیکھنے والے
-
موضوعات : بہاراور 2 مزید
وہ میرا دوست ہے سارے جہاں کو ہے معلوم
دغا کرے وہ کسی سے تو شرم آئے مجھے
دوستوں سے اس قدر صدمے اٹھائے جان پر
دل سے دشمن کی عداوت کا گلہ جاتا رہا
یاد کرنے پہ بھی دوست آئے نہ یاد
دوستوں کے کرم یاد آتے رہے
ہٹائے تھے جو راہ سے دوستوں کی
وہ پتھر مرے گھر میں آنے لگے ہیں
جس بزم میں ساغر ہو نہ صہبا ہو نہ خم ہو
رندوں کو تسلی ہے کہ اس بزم میں تم ہو
اک نیا زخم ملا ایک نئی عمر ملی
جب کسی شہر میں کچھ یار پرانے سے ملے
الٰہی مرے دوست ہوں خیریت سے
یہ کیوں گھر میں پتھر نہیں آ رہے ہیں
دوست ہر عیب چھپا لیتے ہیں
کوئی دشمن بھی ترا ہے کہ نہیں
-
موضوعات : دشمناور 2 مزید
اے دوست تجھ کو رحم نہ آئے تو کیا کروں
دشمن بھی میرے حال پہ اب آب دیدہ ہے
-
موضوعات : آب دیدہاور 3 مزید
جو دوست ہیں وہ مانگتے ہیں صلح کی دعا
دشمن یہ چاہتے ہیں کہ آپس میں جنگ ہو
-
موضوعات : دشمناور 2 مزید
عیش کے یار تو اغیار بھی بن جاتے ہیں
دوست وہ ہیں جو برے وقت میں کام آتے ہیں
زمانوں بعد ملے ہیں تو کیسے منہ پھیروں
مرے لیے تو پرانی شراب ہیں مرے دوست
دوست دو چار نکلتے ہیں کہیں لاکھوں میں
جتنے ہوتے ہیں سوا اتنے ہی کم ہوتے ہیں
ترتیب دے رہا تھا میں فہرست دشمنان
یاروں نے اتنی بات پہ خنجر اٹھا لیا
احباب بھی غیروں کی ادا سیکھ گئے ہیں
آتے ہیں مگر دل کو دکھانے نہیں آتے
بہت چھوٹے ہیں مجھ سے میرے دشمن
جو میرا دوست ہے مجھ سے بڑا ہے
توڑ کر آج غلط فہمی کی دیواروں کو
دوستو اپنے تعلق کو سنوارا جائے
سنا ہے ایسے بھی ہوتے ہیں لوگ دنیا میں
کہ جن سے ملیے تو تنہائی ختم ہوتی ہے
-
موضوعات : دوستیاور 1 مزید
دشمنوں سے پشیمان ہونا پڑا ہے
دوستوں کا خلوص آزمانے کے بعد
جز ترے کوئی بھی دن رات نہ جانے میرے
تو کہاں ہے مگر اے دوست پرانے میرے