Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دوست پر اشعار

شاعری ،یا یہ کہاجائے

کہ اچھا تخلیقی ادب ہم کو ہمارے عام تجربات اور تصورات سے الگ ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے وہ ہمیں ان منطقوں سے آگاہ کرتا ہے جو ہماری روزمرہ کی زندگی سے الگ ہوتے ہیں ۔ کیا آپ دوست اور دوستی کے بارے ان باتوں سے واقف ہیں جن کو یہ شاعری موضوع بناتی ہے ؟ دوست ، اس کی فطرت اس کے جذبات اور ارادوں کا یہ شعری بیانہ آپ کیلئے حیرانی کا باعث ہوگا ۔ اسے پڑھئے اور اپنے آس پاس پھیلے ہوئے دوستوں کو نئے سرے سے دیکھنا شروع کیجئے ۔

دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے

جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں

بشیر بدر

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔ

دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

احمد فراز

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا

مرزا غالب

ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا

جونؔ یاروں کے یار تھے ہم تو

جون ایلیا

دوستی جب کسی سے کی جائے

دشمنوں کی بھی رائے لی جائے

راحت اندوری

وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا

جو پچھلی رات سے یاد آ رہا ہے

ناصر کاظمی

دشمنوں سے پیار ہوتا جائے گا

دوستوں کو آزماتے جائیے

خمار بارہ بنکوی

دل ابھی پوری طرح ٹوٹا نہیں

دوستوں کی مہربانی چاہئے

عبد الحمید عدم

دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

حفیظ جالندھری

میرے ہم نفس میرے ہم نوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے

میں ہوں درد عشق سے جاں بلب مجھے زندگی کی دعا نہ دے

شکیل بدایونی

دوستی عام ہے لیکن اے دوست

دوست ملتا ہے بڑی مشکل سے

حفیظ ہوشیارپوری

تیری باتیں ہی سنانے آئے

دوست بھی دل ہی دکھانے آئے

احمد فراز

داغ دنیا نے دیے زخم زمانے سے ملے

ہم کو تحفے یہ تمہیں دوست بنانے سے ملے

کیف بھوپالی

دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں

دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پہ پہلا تیر کون

پروین شاکر

یوں لگے دوست ترا مجھ سے خفا ہو جانا

جس طرح پھول سے خوشبو کا جدا ہو جانا

قتیل شفائی

دوستوں کو بھی ملے درد کی دولت یا رب

میرا اپنا ہی بھلا ہو مجھے منظور نہیں

حفیظ جالندھری

مجھے دوست کہنے والے ذرا دوستی نبھا دے

یہ مطالبہ ہے حق کا کوئی التجا نہیں ہے

شکیل بدایونی

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

مرزا غالب

دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے

دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے

حبیب جالب

نہ اداس ہو نہ ملال کر کسی بات کا نہ خیال کر

کئی سال بعد ملے ہیں ہم تیرے نام آج کی شام ہے

بشیر بدر

پتھر تو ہزاروں نے مارے تھے مجھے لیکن

جو دل پہ لگا آ کر اک دوست نے مارا ہے

سہیل عظیم آبادی

دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا

وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا

احمد فراز

مسیح و خضر کی عمریں نثار ہوں اس پر

وہ ایک لمحہ جو یاروں کے درمیاں گزرے

مجید امجد

دشمنوں کی جفا کا خوف نہیں

دوستوں کی وفا سے ڈرتے ہیں

حفیظ بنارسی

دوستوں سے ملاقات کی شام ہے

یہ سزا کاٹ کر اپنے گھر جاؤں گا

مظہر امام

اے دوست میں خاموش کسی ڈر سے نہیں تھا

قائل ہی تری بات کا اندر سے نہیں تھا

راجیندر منچندا بانی

عقل کہتی ہے دوبارہ آزمانا جہل ہے

دل یہ کہتا ہے فریب دوست کھاتے جائیے

ماہر القادری

پرانے یار بھی آپس میں اب نہیں ملتے

نہ جانے کون کہاں دل لگا کے بیٹھ گیا

فاضل جمیلی

بہاروں کی نظر میں پھول اور کانٹے برابر ہیں

محبت کیا کریں گے دوست دشمن دیکھنے والے

کلیم عاجز

وہ میرا دوست ہے سارے جہاں کو ہے معلوم

دغا کرے وہ کسی سے تو شرم آئے مجھے

قتیل شفائی

دوستوں سے اس قدر صدمے اٹھائے جان پر

دل سے دشمن کی عداوت کا گلہ جاتا رہا

حیدر علی آتش

یاد کرنے پہ بھی دوست آئے نہ یاد

دوستوں کے کرم یاد آتے رہے

خمار بارہ بنکوی

ہٹائے تھے جو راہ سے دوستوں کی

وہ پتھر مرے گھر میں آنے لگے ہیں

خمار بارہ بنکوی

جس بزم میں ساغر ہو نہ صہبا ہو نہ خم ہو

رندوں کو تسلی ہے کہ اس بزم میں تم ہو

نامعلوم

اک نیا زخم ملا ایک نئی عمر ملی

جب کسی شہر میں کچھ یار پرانے سے ملے

کیف بھوپالی

الٰہی مرے دوست ہوں خیریت سے

یہ کیوں گھر میں پتھر نہیں آ رہے ہیں

خمار بارہ بنکوی

دوست ہر عیب چھپا لیتے ہیں

کوئی دشمن بھی ترا ہے کہ نہیں

باقی صدیقی

اے دوست تجھ کو رحم نہ آئے تو کیا کروں

دشمن بھی میرے حال پہ اب آب دیدہ ہے

لالہ مادھو رام جوہر

جو دوست ہیں وہ مانگتے ہیں صلح کی دعا

دشمن یہ چاہتے ہیں کہ آپس میں جنگ ہو

لالہ مادھو رام جوہر

عیش کے یار تو اغیار بھی بن جاتے ہیں

دوست وہ ہیں جو برے وقت میں کام آتے ہیں

نامعلوم

مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقت دفن

زندگی بھر کی محبت کا صلا دینے لگے

ثاقب لکھنوی

زمانوں بعد ملے ہیں تو کیسے منہ پھیروں

مرے لیے تو پرانی شراب ہیں مرے دوست

لیاقت علی عاصم

دوست دو چار نکلتے ہیں کہیں لاکھوں میں

جتنے ہوتے ہیں سوا اتنے ہی کم ہوتے ہیں

لالہ مادھو رام جوہر

ترتیب دے رہا تھا میں فہرست دشمنان

یاروں نے اتنی بات پہ خنجر اٹھا لیا

فنا نظامی کانپوری

احباب بھی غیروں کی ادا سیکھ گئے ہیں

آتے ہیں مگر دل کو دکھانے نہیں آتے

بشیر بدر

بہت چھوٹے ہیں مجھ سے میرے دشمن

جو میرا دوست ہے مجھ سے بڑا ہے

اطہر نفیس

توڑ کر آج غلط فہمی کی دیواروں کو

دوستو اپنے تعلق کو سنوارا جائے

سنتوش کھروڑکر

سنا ہے ایسے بھی ہوتے ہیں لوگ دنیا میں

کہ جن سے ملیے تو تنہائی ختم ہوتی ہے

افتخار شفیع

دشمنوں سے پشیمان ہونا پڑا ہے

دوستوں کا خلوص آزمانے کے بعد

خمار بارہ بنکوی

جز ترے کوئی بھی دن رات نہ جانے میرے

تو کہاں ہے مگر اے دوست پرانے میرے

احمد فراز
بولیے