Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دشمنی پر اشعار

دوستی کی طرح دشمنی بھی

ایک بہت بنیادی انسانی جذبہ ہے ۔ یہ جذبہ منفی ہی سہی لیکن بعض اوقات اس سے بچ نکلنا اور اس سے چھٹکارا پانا ناممکن سا ہوتا ہے البتہ شاعروں نے اس جذبے میں بھی خوشگواری کے کئے پہلو نکال لئے ہیں ، ان کا اندازہ آپ کو ہمارا یہ انتخاب پڑھ کر ہو گا ۔ اس دشمنی اور دشمن کا ایک خالص رومانی پہلو بھی ہے ۔ اس لحاظ سے معشوق عاشق کا دشمن ہوتا ہے جو تاعمر ایسی چالیں چلتا رہتا ہے جس سے عاشق کو تکلیف پہنچے ، رقیب سے رسم وراہ رکھتا ہے ۔ اس کی دشمنی کی اور زیادہ دلچسپ اور مزے دار صورتوں کو جاننے کیلئے ہمارا یہ انتخاب پڑھئے ۔

آ گیا جوہرؔ عجب الٹا زمانہ کیا کہیں

دوست وہ کرتے ہیں باتیں جو عدو کرتے نہیں

لالہ مادھو رام جوہر

وفا پر دغا صلح میں دشمنی ہے

بھلائی کا ہرگز زمانہ نہیں ہے

دتا تریہ کیفی

جو دوست ہیں وہ مانگتے ہیں صلح کی دعا

دشمن یہ چاہتے ہیں کہ آپس میں جنگ ہو

لالہ مادھو رام جوہر

لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تری

ہم تری دوستی سے ڈرتے ہیں

حبیب جالب

اپنے بیگانے سے اب مجھ کو شکایت نہ رہی

دشمنی کر کے مرے دوست نے مارا مجھ کو

اسد علی خان قلق

عمر بھر ملنے نہیں دیتی ہیں اب تو رنجشیں

وقت ہم سے روٹھ جانے کی ادا تک لے گیا

فصیح اکمل

یہ بھی اک بات ہے عداوت کی

روزہ رکھا جو ہم نے دعوت کی

امیر مینائی

کسے خبر وہ محبت تھی یا رقابت تھی

بہت سے لوگ تجھے دیکھ کر ہمارے ہوئے

احمد فراز

دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے

دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے

حبیب جالب

نگاہ ناز کی پہلی سی برہمی بھی گئی

میں دوستی کو ہی روتا تھا دشمنی بھی گئی

مائل لکھنوی

مجھے جو دوستی ہے اس کو دشمنی مجھ سے

نہ اختیار ہے اس کا نہ میرا چارا ہے

غمگین دہلوی

دشمنی کا سفر اک قدم دو قدم

تم بھی تھک جاؤ گے ہم بھی تھک جائیں گے

بشیر بدر

اے دوست تجھ کو رحم نہ آئے تو کیا کروں

دشمن بھی میرے حال پہ اب آب دیدہ ہے

لالہ مادھو رام جوہر

کرے ہے عداوت بھی وہ اس ادا سے

لگے ہے کہ جیسے محبت کرے ہے

کلیم عاجز

میں محبت نہ چھپاؤں تو عداوت نہ چھپا

نہ یہی راز میں اب ہے نہ وہی راز میں ہے

کلیم عاجز

دشمنی نے سنا نہ ہووے گا

جو ہمیں دوستی نے دکھلایا

خواجہ میر درد

ایسے بگڑے کہ پھر جفا بھی نہ کی

دشمنی کا بھی حق ادا نہ ہوا

حسرتؔ موہانی

دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے

جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں

بشیر بدر

میں حیراں ہوں کہ کیوں اس سے ہوئی تھی دوستی اپنی

مجھے کیسے گوارہ ہو گئی تھی دشمنی اپنی

احسان دانش

محبت عداوت وفا بے رخی

کرائے کے گھر تھے بدلتے رہے

بشیر بدر

دشمنی لاکھ سہی ختم نہ کیجے رشتہ

دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہئے

ندا فاضلی

تعلق ہے نہ اب ترک تعلق

خدا جانے یہ کیسی دشمنی ہے

کاملؔ بہزادی
بولیے