Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زلف پر اشعار

شاعری میں زلف کا موضوع

بہت دراز رہا ہے ۔ کلاسیکی شاعری میں تو زلف کے موضوع کے تئیں شاعروں نے بے پناہ دلچسپی دکھائی ہے یہ زلف کہیں رات کی طوالت کا بیانیہ ہے تو کہیں اس کی تاریکی کا ۔اور اسے ایسی ایسی نادر تشبہیوں ، استعاروں اور علامتوں کے ذریعے سے برتا گیا ہے کہ پڑھنے والا حیران رہ جاتا ہے ۔ شاعری کا یہ حصہ بھی شعرا کے بے پناہ تخیل کی عمدہ مثال ہے ۔

پوچھا جو ان سے چاند نکلتا ہے کس طرح

زلفوں کو رخ پہ ڈال کے جھٹکا دیا کہ یوں

آرزو لکھنوی

آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہوتے تک

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک

مرزا غالب

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے

اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

میر تقی میر

یہ اڑی اڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو

تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ

احسان دانش

کئی چاند تھے سر آسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے

نہ لہو مرے ہی جگر میں تھا نہ تمہاری زلف سیاہ تھی

احمد مشتاق

نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں

تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں

مرزا غالب

کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی

جھوم کے آئی گھٹا ٹوٹ کے برسا پانی

آرزو لکھنوی

جب یار نے اٹھا کر زلفوں کے بال باندھے

تب میں نے اپنے دل میں لاکھوں خیال باندھے

محمد رفیع سودا

اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی

اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی

جرأت قلندر بخش

اپنے سر اک بلا تو لینی تھی

میں نے وہ زلف اپنے سر لی ہے

جون ایلیا

بکھری ہوئی وہ زلف اشاروں میں کہہ گئی

میں بھی شریک ہوں ترے حال تباہ میں

جلیل مانک پوری

بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا

تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے

اسرار الحق مجاز

کچھ بکھری ہوئی یادوں کے قصے بھی بہت تھے

کچھ اس نے بھی بالوں کو کھلا چھوڑ دیا تھا

منور رانا

یہ کھلے کھلے سے گیسو انہیں لاکھ تو سنوارے

مرے ہاتھ سے سنورتے تو کچھ اور بات ہوتی

کیفی وجدانی

چھیڑتی ہیں کبھی لب کو کبھی رخساروں کو

تم نے زلفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا ہے

غوث خواہ مخواہ حیدرآبادی

زاہد نے مرا حاصل ایماں نہیں دیکھا

رخ پر تری زلفوں کو پریشاں نہیں دیکھا

اصغر گونڈوی

اے جنوں پھر مرے سر پر وہی شامت آئی

پھر پھنسا زلفوں میں دل پھر وہی آفت آئی

آسی غازی پوری

اجازت ہو تو میں تصدیق کر لوں تیری زلفوں سے

سنا ہے زندگی اک خوبصورت دام ہے ساقی

عبد الحمید عدم

ہاتھ ٹوٹیں میں نے گر چھیڑی ہوں زلفیں آپ کی

آپ کے سر کی قسم باد صبا تھی میں نہ تھا

مومن خاں مومن

الجھا ہے پانوں یار کا زلف دراز میں

لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

مومن خاں مومن

سرک کر آ گئیں زلفیں جو ان مخمور آنکھوں تک

میں یہ سمجھا کہ مے خانے پہ بدلی چھائی جاتی ہے

نشور واحدی

دیکھی تھی ایک رات تری زلف خواب میں

پھر جب تلک جیا میں پریشان ہی رہا

رضا عظیم آبادی

زلفیں سینہ ناف کمر

ایک ندی میں کتنے بھنور

جاں نثار اختر

جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم

اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے

حیدر علی آتش

نہ جھٹکو زلف سے پانی یہ موتی ٹوٹ جائیں گے

تمہارا کچھ نہ بگڑے گا مگر دل ٹوٹ جائیں گے

راجیندر کرشن

پھر یاد بہت آئے گی زلفوں کی گھنی شام

جب دھوپ میں سایہ کوئی سر پر نہ ملے گا

بشیر بدر

آپ کی نازک کمر پر بوجھ پڑتا ہے بہت

بڑھ چلے ہیں حد سے گیسو کچھ انہیں کم کیجئے

حیدر علی آتش

دیکھ لیتے جو مرے دل کی پریشانی کو

آپ بیٹھے ہوئے زلفیں نہ سنوارا کرتے

جلیل مانک پوری

سب کے جیسی نہ بنا زلف کہ ہم سادہ نگاہ

تیرے دھوکے میں کسی اور کے شانے لگ جائیں

فرحت احساس

ابر میں چاند گر نہ دیکھا ہو

رخ پہ زلفوں کو ڈال کر دیکھو

جوش لکھنوی

صبح دم زلفیں نہ یوں بکھرائیے

لوگ دھوکا کھا رہے ہیں شام کا

شرر بلیاوی

ذرا ان کی شوخی تو دیکھنا لیے زلف خم شدہ ہاتھ میں

میرے پاس آئے دبے دبے مجھے سانپ کہہ کے ڈرا دیا

نواب سلطان جہاں بیگم

تصور زلف کا ہے اور میں ہوں

بلا کا سامنا ہے اور میں ہوں

لالہ مادھو رام جوہر

منہ پر نقاب زرد ہر اک زلف پر گلال

ہولی کی شام ہی تو سحر ہے بسنت کی

لالہ مادھو رام جوہر

بال اپنے اس پری رو نے سنوارے رات بھر

سانپ لوٹے سیکڑوں دل پر ہمارے رات بھر

لالہ مادھو رام جوہر

یہ کہہ کر ستمگر نے زلفوں کو جھٹکا

بہت دن سے دنیا پریشاں نہیں ہے

نامعلوم

میرے جنوں کو زلف کے سائے سے دور رکھ

رستے میں چھاؤں پا کے مسافر ٹھہر نہ جائے

فانی بدایونی

کبھی کھولے تو کبھی زلف کو بکھرائے ہے

زندگی شام ہے اور شام ڈھلی جائے ہے

پریم واربرٹنی

رخ روشن پہ اس کی گیسوئے شب گوں لٹکتے ہیں

قیامت ہے مسافر راستہ دن کو بھٹکتے ہیں

بھارتیندو ہریش چندر

شکر ہے باندھ لیا اپنے کھلے بالوں کو

اس نے شیرازۂ عالم کو بکھرنے نہ دیا

جلیل مانک پوری

زلفوں میں کیا قید نہ ابرو سے کیا قتل

تو نے تو کوئی بات نہ مانی مرے دل کی

امام بخش ناسخ

کسی کے ہو رہو اچھی نہیں یہ آزادی

کسی کی زلف سے لازم ہے سلسلہ دل کا

یگانہ چنگیزی

اللہ رے تیرے سلسلۂ زلف کی کشش

جاتا ہے جی ادھر ہی کھنچا کائنات کا

مصحفی غلام ہمدانی

برسات کا مزا ترے گیسو دکھا گئے

عکس آسمان پر جو پڑا ابر چھا گئے

لالہ مادھو رام جوہر

جلتا ہے اب تلک تری زلفوں کے رشک سے

ہر چند ہو گیا ہے چمن کا چراغ گل

آبرو شاہ مبارک

ان کے گیسو سنورتے جاتے ہیں

حادثے ہیں گزرتے جاتے ہیں

مہیش چندر نقش

حاتمؔ اس زلف کی طرف مت دیکھ

جان کر کیوں بلا میں پھنستا ہے

شیخ ظہور الدین حاتم

اس کے رخسار پر کہاں ہے زلف

شعلۂ حسن کا دھواں ہے زلف

جوشش عظیم آبادی

گئی تھی کہہ کے میں لاتی ہوں زلف یار کی بو

پھری تو باد صبا کا دماغ بھی نہ ملا

جلالؔ لکھنوی

تری جو زلف کا آیا خیال آنکھوں میں

وہیں کھٹکنے لگا بال بال آنکھوں میں

شیخ ظہور الدین حاتم
بولیے