منور رانا
غزل 45
نظم 9
اشعار 105
ایسا لگتا ہے کہ وہ بھول گیا ہے ہم کو
اب کبھی کھڑکی کا پردا نہیں بدلا جاتا
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
اے خاک وطن تجھ سے میں شرمندہ بہت ہوں
مہنگائی کے موسم میں یہ تہوار پڑا ہے
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
بھلے لگتے ہیں اسکولوں کی یونیفارم میں بچے
کنول کے پھول سے جیسے بھرا تالاب رہتا ہے
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
فرشتے آ کر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں
وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
ہنس کے ملتا ہے مگر کافی تھکی لگتی ہیں
اس کی آنکھیں کئی صدیوں کی جگی لگتی ہیں
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
اقوال 39

اسپتال کی لفٹ بھی اتنی سست رفتار ہوتی ہے کہ بجائے بجلی کے آکسیجن سے چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے

انٹرنیٹ کی مدد سے انگریزی ادب کے دوچار بے ربط لیکن بھاری بھرکم جملوں کا ترجمہ کرکے اردو ادب میں فرضی رعب گھانٹھنے والے فارمی انڈوں کی طرح اتنے ناقد پیدا ہو رہے ہیں کہ تنقید سے ادب کو فائدے کا امکان ہی ختم ہو گیا ہے۔
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے

خاکساری وہ نعمت ہے جو پیشانی پر خوش نصیبی کا سورج اگا دیتی ہے۔
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے

آج تک ڈاکٹری وہ مقدس پیشہ ہے جس کے اعتبار کی چادر کے نیچے باپ اپنی بیٹی، بھائی اپنی جوان بہن کو تنہا چھوڑ دیتا ہے۔ ہر چند کے اس پیشے میں بھی کچھ خراب لوگ آگیے ہیں مگر خراب لوگوں سے کیسے اور کہاں بچا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ تو مسجد اور مندروں میں بھی منڈلاتے ہوئے مل جاتے ہیں۔
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے

ہم سب سرکس کے اس جوکر کا رول ادا کر رہے ہیں جو ہنسانے کے لیے روتا ہے اور رلانے کے لیے کھلکھلا کر ہنس دیتا ہے۔
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے