Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پانی پر اشعار

شاعری میں پانی اپنی

بیشترصورتوں میں زندگی کے استعارے کے طور پر برتا گیا ہے اور اس کی روانی زندگی کی حرکی توانائی کا اشارہ ہے ۔ پانی کا ٹھہرجانا زندگی کی بے حرکتی کی علامت ہے ۔ پانی کااستعارہ اپنے ان معنوی تلازمات کی وجہ سے شاعری اورخاص کرجدید شاعری میں کثرت سے استعمال میں آیا ہے۔ تخلیقی عمل کسی ایک سمت میں نہیں چلتا ۔ یہ بات ہم نے اس لئے کہی ہے کیونکہ پانی اوراس کی روانی بعض اوقات شاعری میں زندگی کی سفا کی کی علامت کے طور پربھی آئ ہے ۔ پانی کی ان شکلوں کو ہمارے اس انتخاب میں شناخت کیجئے ۔

کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی

جھوم کے آئی گھٹا ٹوٹ کے برسا پانی

آرزو لکھنوی

اگر فرصت ملے پانی کی تحریروں کو پڑھ لینا

ہر اک دریا ہزاروں سال کا افسانہ لکھتا ہے

بشیر بدر

تم اس کے پاس ہو جس کو تمہاری چاہ نہ تھی

کہاں پہ پیاس تھی دریا کہاں بنایا گیا

یاسر خان انعام

ہم انتظار کریں ہم کو اتنی تاب نہیں

پلا دو تم ہمیں پانی اگر شراب نہیں

نوح ناروی

وہ جو پیاسا لگتا تھا سیلاب زدہ تھا

پانی پانی کہتے کہتے ڈوب گیا ہے

آنس معین

یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے

اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں

احمد مشتاق

میں نے اپنی خشک آنکھوں سے لہو چھلکا دیا

اک سمندر کہہ رہا تھا مجھ کو پانی چاہئے

راحت اندوری

دور تک پھیلا ہوا پانی ہی پانی ہر طرف

اب کے بادل نے بہت کی مہربانی ہر طرف

شباب للت

ایسی پیاس اور ایسا صبر

دریا پانی پانی ہے

وکاس شرما راز

اندر اندر کھوکھلے ہو جاتے ہیں گھر

جب دیواروں میں پانی بھر جاتا ہے

زیب غوری

وہ مجبوری موت ہے جس میں کاسے کو بنیاد ملے

پیاس کی شدت جب بڑھتی ہے ڈر لگتا ہے پانی سے

محسن اسرار

اگر اے ناخدا طوفان سے لڑنے کا دم خم ہے

ادھر کشتی نہ لے آنا یہاں پانی بہت کم ہے

دواکر راہی

اس سے کہنا کہ دھواں دیکھنے لائق ہوگا

آگ پہنے ہوئے جاوں گا میں پانی کی طرف

ابھیشیک شکلا

ابلتے وقت پانی سوچتا ہوگا ضرور

اگر برتن نہ ہوتا تو بتاتا آگ کو

اشونی متل عیش

ہنستا پانی، روتا پانی

مجھ کو آوازیں دیتا تھا

ناصر کاظمی

حرف اپنے ہی معانی کی طرح ہوتا ہے

پیاس کا ذائقہ پانی کی طرح ہوتا ہے

فیصل عجمی

دوستو ڈھونڈ کے ہم سا کوئی پیاسا لاؤ

ہم تو آنسو بھی جو پیتے ہیں تو پانی کی طرح

والی آسی

حیران مت ہو تیرتی مچھلی کو دیکھ کر

پانی میں روشنی کو اترتے ہوئے بھی دیکھ

محمد علوی

قصے سے ترے میری کہانی سے زیادہ

پانی میں ہے کیا اور بھی پانی سے زیادہ

ابرار احمد

وہ دھوپ تھی کہ زمیں جل کے راکھ ہو جاتی

برس کے اب کے بڑا کام کر گیا پانی

لئیق عاجز

انگنت سفینوں میں دیپ جگمگاتے ہیں

رات نے لٹایا ہے رنگ و نور پانی پر

عقیل نعمانی

پانی نے جسے دھوپ کی مٹی سے بنایا

وہ دائرہ ربط بگڑنے کے لیے تھا

حنیف ترین

خاک ہوں اڑتا ہوں سچ ہے کہ میں آوارہ مزاج

پانی ہوتا بھی تو سیلاب میں دیکھا جاتا

مکیش عالم

جنہیں ہم بلبلا پانی کا دکھتے ہیں کہو ان سے

نظر ہو دیکھنے والی تو بحر بے کراں ہم ہیں

صدا انبالوی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے