خط پر اشعار
شاعری میں خط کا مضمون
عاشق ، معشوق اور نامہ بر کے درمیان کی ایک دلچسپ کہانی ہے ۔ اس کہانی کو شاعروں کے تخیل نے اور زیادہ رنگارنگ بنا دیا ہے ۔ اگر آپ نے خط کو موضوع بنانے والی شاعری نہیں پڑھی تو گویا آپ کلاسیکی شاعری کے ایک بہت دلچسپ حصے سے ناآشنا ہیں ۔ ہم ایک چھوٹا سا انتخاب یہاں پیش کر رہے ہیں اسے پڑھئے اور عام کیجئے ۔
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
چند تصویر بتاں چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا
ناامیدی موت سے کہتی ہے اپنا کام کر
آس کہتی ہے ٹھہر خط کا جواب آنے کو ہے
-
موضوعات : امیداور 2 مزید
کیا جانے کیا لکھا تھا اسے اضطراب میں
قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں
نامہ بر تو ہی بتا تو نے تو دیکھے ہوں گے
کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں
کافی ہے مرے دل کی تسلی کو یہی بات
آپ آ نہ سکے آپ کا پیغام تو آیا
-
موضوعات : عشقاور 1 مزید
اندھیرا ہے کیسے ترا خط پڑھوں
لفافے میں کچھ روشنی بھیج دے
میں نے اس کی طرف سے خط لکھا
اور اپنے پتے پہ بھیج دیا
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے
ایک مدت سے نہ قاصد ہے نہ خط ہے نہ پیام
اپنے وعدے کو تو کر یاد مجھے یاد نہ کر
-
موضوعات : قاصداور 1 مزید
غصے میں برہمی میں غضب میں عتاب میں
خود آ گئے ہیں وہ مرے خط کے جواب میں
تمہارے خط میں نظر آئی اتنی خاموشی
کہ مجھ کو رکھنے پڑے اپنے کان کاغذ پر
چوں شمع سوزاں چوں ذرہ حیراں ز مہر آں مہ بگشتم آخر
نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آوے نہ بھیجے پتیاں
-
موضوعات : جدائیاور 3 مزید
مرا خط اس نے پڑھا پڑھ کے نامہ بر سے کہا
یہی جواب ہے اس کا کوئی جواب نہیں
-
موضوعات : تجاہلاور 1 مزید
ترا خط آنے سے دل کو میرے آرام کیا ہوگا
خدا جانے کہ اس آغاز کا انجام کیا ہوگا
اشکوں کے نشاں پرچۂ سادہ پہ ہیں قاصد
اب کچھ نہ بیاں کر یہ عبارت ہی بہت ہے
-
موضوعات : آنسواور 1 مزید
کیا کیا فریب دل کو دئیے اضطراب میں
ان کی طرف سے آپ لکھے خط جواب میں
ہم پہ جو گزری بتایا نہ بتائیں گے کبھی
کتنے خط اب بھی ترے نام لکھے رکھے ہیں
مضمون سوجھتے ہیں ہزاروں نئے نئے
قاصد یہ خط نہیں مرے غم کی کتاب ہے
-
موضوعات : قاصداور 1 مزید
کھلے گا کس طرح مضموں مرے مکتوب کا یا رب
قسم کھائی ہے اس کافر نے کاغذ کے جلانے کی
کیسے مانیں کہ انہیں بھول گیا تو اے کیفؔ
ان کے خط آج ہمیں تیرے سرہانے سے ملے
کوئی پرانا خط کچھ بھولی بسری یاد
زخموں پر وہ لمحے مرہم ہوتے ہیں
کبھی یہ فکر کہ وہ یاد کیوں کریں گے ہمیں
کبھی خیال کہ خط کا جواب آئے گا
مٹ چلے میری امیدوں کی طرح حرف مگر
آج تک تیرے خطوں سے تری خوشبو نہ گئی
اس نے یہ کہہ کر پھیر دیا خط
خون سے کیوں تحریر نہیں ہے
روح گھبرائی ہوئی پھرتی ہے میری لاش پر
کیا جنازے پر میرے خط کا جواب آنے کو ہے
لے کے خط ان کا کیا ضبط بہت کچھ لیکن
تھرتھراتے ہوئے ہاتھوں نے بھرم کھول دیا
خط دیکھ کر مرا مرے قاصد سے یوں کہا
کیا گل نہیں ہوا وہ چراغ سحر ہنوز
پہلی بار وہ خط لکھا تھا
جس کا جواب بھی آ سکتا تھا
وہ تڑپ جائے اشارہ کوئی ایسا دینا
اس کو خط لکھنا تو میرا بھی حوالہ دینا
تمہیں یہ غم ہے کہ اب چٹھیاں نہیں آتیں
ہماری سوچو ہمیں ہچکیاں نہیں آتیں
-
موضوعات : ہچکیاور 1 مزید
آیا نہ پھر کے ایک بھی کوچے سے یار کے
قاصد گیا نسیم گئی نامہ بر گیا
کیا بھول گئے ہیں وہ مجھے پوچھنا قاصد
نامہ کوئی مدت سے مرے کام نہ آیا
پھاڑ کر خط اس نے قاصد سے کہا
کوئی پیغام زبانی اور ہے
کسی نا خواندہ بوڑھے کی طرح خط اس کا پڑھتا ہوں
کہ سو سو بار اک اک لفظ سے انگلی گزرتی ہے
کسی کو بھیج کے خط ہائے یہ کیسا عذاب آیا
کہ ہر اک پوچھتا ہے نامہ بر آیا جواب آیا
اپنا خط آپ دیا ان کو مگر یہ کہہ کر
خط تو پہچانئے یہ خط مجھے گمنام ملا
خط لکھا یار نے رقیبوں کو
زندگی نے دیا جواب مجھے
زباں قاصد کی مضطرؔ کاٹ لی جب ان کو خط بھیجا
کہ آخر آدمی ہے تذکرہ شاید کہیں کر دے
یا اس سے جواب خط لانا یا قاصد اتنا کہہ دینا
بچنے کا نہیں بیمار ترا ارشاد اگر کچھ بھی نہ ہوا
خط شوق کو پڑھ کے قاصد سے بولے
یہ ہے کون دیوانہ خط لکھنے والا
ہو چکا عیش کا جلسہ تو مجھے خط بھیجا
آپ کی طرح سے مہمان بلائے کوئی
قیامت ہے یہ کہہ کر اس نے لوٹایا ہے قاصد کو
کہ ان کا تو ہر اک خط آخری پیغام ہوتا ہے
توقع ہے دھوکے میں آ کر وہ پڑھ لیں
کہ لکھا ہے ناما انہیں خط بدل کر
جب اس نے مرا خط نہ چھوا ہاتھ سے اپنے
قاصد نے بھی چپکا دیا دیوار سے کاغذ
خط کے پرزے آئے ہیں قاصد کا سر تصویر غیر
یہ ہے بھیجا اس ستم گر نے مرے خط کا جواب
پتا ملتا نہیں اس بے نشاں کا
لیے پھرتا ہے قاصد جا بجا خط
خط کا یہ جواب آیا کہ قاصد گیا جی سے
سر ایک طرف لوٹے ہے اور ایک طرف دھڑ
اجی پھینکو رقیب کا نامہ
نہ عبارت بھلی نہ اچھا خط