قاصد پر اشعار
قاصد کلاسیکی شاعری کا
ایک مضبوط کردار ہے اور بہت سے نئے اورانوکھے مضامین اسے مرکز میں رکھ کر باندھے گئے ہیں ۔ وہ عاشق کا پیغام لے کر معشوق کے پاس جاتا ہے ۔ اس طور پر عاشق قاصد کو اپنے آپ سے زیادہ خوش نصیب تصور کرتا ہے کہ اس بہانے اسے محبوب کا دیدار اور اس سے ہم کلامی نصیب ہو جاتی ہے ۔ قاصد کبھی جلوہ یار کی شدت سے بچ نکلتا ہے اور کبھی خط کے جواب میں اس کی لاش آتی ہے ۔ یہ اور اس قسم کے بہت سے دلچسپ مضامین شاعروں نے باندھے ہیں ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے اور لطف لیجئے ۔
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
کیا جانے کیا لکھا تھا اسے اضطراب میں
قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں
نامہ بر تو ہی بتا تو نے تو دیکھے ہوں گے
کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں
قاصد پیام شوق کو دینا بہت نہ طول
کہنا فقط یہ ان سے کہ آنکھیں ترس گئیں
-
موضوعات : انتظاراور 1 مزید
کوئی نام و نشاں پوچھے تو اے قاصد بتا دینا
تخلص داغؔ ہے وہ عاشقوں کے دل میں رہتے ہیں
ایک مدت سے نہ قاصد ہے نہ خط ہے نہ پیام
اپنے وعدے کو تو کر یاد مجھے یاد نہ کر
-
موضوعات : خطاور 1 مزید
مرا خط اس نے پڑھا پڑھ کے نامہ بر سے کہا
یہی جواب ہے اس کا کوئی جواب نہیں
-
موضوعات : تجاہلاور 1 مزید
آتی ہے بات بات مجھے بار بار یاد
کہتا ہوں دوڑ دوڑ کے قاصد سے راہ میں
قاصد نہیں یہ کام ترا اپنی راہ لے
اس کا پیام دل کے سوا کون لا سکے
مزا جب تھا کہ میرے منہ سے سنتے داستاں میری
کہاں سے لائے گا قاصد دہن میرا زباں میری
-
موضوعات : عشقاور 2 مزید
تو دیکھ رہا ہے جو مرا حال ہے قاصد
مجھ کو یہی کہنا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
اشکوں کے نشاں پرچۂ سادہ پہ ہیں قاصد
اب کچھ نہ بیاں کر یہ عبارت ہی بہت ہے
-
موضوعات : آنسواور 1 مزید
مضمون سوجھتے ہیں ہزاروں نئے نئے
قاصد یہ خط نہیں مرے غم کی کتاب ہے
-
موضوعات : خطاور 1 مزید
خط دیکھ کر مرا مرے قاصد سے یوں کہا
کیا گل نہیں ہوا وہ چراغ سحر ہنوز
وہ اور وعدہ وصل کا قاصد نہیں نہیں
سچ سچ بتا یہ لفظ انہی کی زباں کے ہیں
-
موضوعات : وصالاور 1 مزید
کیا مرے حال پہ سچ مچ انہیں غم تھا قاصد
تو نے دیکھا تھا ستارہ سر مژگاں کوئی
آہ قاصد تو اب تلک نہ پھرا
دل دھڑکتا ہے کیا ہوا ہوگا
-
موضوعات : انتظاراور 1 مزید
آیا نہ پھر کے ایک بھی کوچے سے یار کے
قاصد گیا نسیم گئی نامہ بر گیا
کیا بھول گئے ہیں وہ مجھے پوچھنا قاصد
نامہ کوئی مدت سے مرے کام نہ آیا
پھاڑ کر خط اس نے قاصد سے کہا
کوئی پیغام زبانی اور ہے
کسی کو بھیج کے خط ہائے یہ کیسا عذاب آیا
کہ ہر اک پوچھتا ہے نامہ بر آیا جواب آیا
زباں قاصد کی مضطرؔ کاٹ لی جب ان کو خط بھیجا
کہ آخر آدمی ہے تذکرہ شاید کہیں کر دے
وہ کب سننے لگے قاصد مگر یوں ہی سنا دینا
ملا کر دوسروں کی داستاں میں داستاں میری
یا اس سے جواب خط لانا یا قاصد اتنا کہہ دینا
بچنے کا نہیں بیمار ترا ارشاد اگر کچھ بھی نہ ہوا
خط شوق کو پڑھ کے قاصد سے بولے
یہ ہے کون دیوانہ خط لکھنے والا
قیامت ہے یہ کہہ کر اس نے لوٹایا ہے قاصد کو
کہ ان کا تو ہر اک خط آخری پیغام ہوتا ہے
پھرتا ہے میرے دل میں کوئی حرف مدعا
قاصد سے کہہ دو اور نہ جائے ذرا سی دیر
جب اس نے مرا خط نہ چھوا ہاتھ سے اپنے
قاصد نے بھی چپکا دیا دیوار سے کاغذ
خط کے پرزے آئے ہیں قاصد کا سر تصویر غیر
یہ ہے بھیجا اس ستم گر نے مرے خط کا جواب
پتا ملتا نہیں اس بے نشاں کا
لیے پھرتا ہے قاصد جا بجا خط
خط کا یہ جواب آیا کہ قاصد گیا جی سے
سر ایک طرف لوٹے ہے اور ایک طرف دھڑ
مرا خط پڑھ لیا اس نے مگر یہ تو بتا قاصد
نظر آئی جبیں پر بوند بھی کوئی پسینے کی
کہنا قاصد کہ اس کے جینے کا
وعدۂ وصل پر مدار ہے آج
-
موضوعات : وصالاور 1 مزید
قاصد جو گیا میرا لے نامہ تو ظالم نے
نامے کے کیے پرزے قاصد کو بٹھا رکھا
دیکھ قاصد کو مرے یار نے پوچھا تاباںؔ
کیا مرے ہجر میں جیتا ہے وہ غم ناک ہنوز
نامہ بر ناامید آتا ہے
ہائے کیا سست پاؤں پڑتے ہیں
جواب نامہ یا دیتا نہیں یا قید کرتا ہے
جو بھیجا ہم نے قاصد پھر نہ پائی کچھ خبر اس کی