خاموشی پر اشعار
خاموشی کو موضوع بنانے
والے ان شعروں میں آپ خاموشی کا شور سنیں گے اور دیکھیں گے کہ الفاظ کے بے معنی ہوجانے کے بعد خاموشی کس طرح کلام کرتی ہے ۔ ہم نے خاموشی پر بہترین شاعری کا انتخاب کیا ہے اسے پڑھئے اور خاموشی کی زبان سے آگاہی حاصل کیجیے ۔
مستقل بولتا ہی رہتا ہوں
کتنا خاموش ہوں میں اندر سے
ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی
اور وہ سمجھے نہیں یہ خامشی کیا چیز ہے
-
موضوعات : فلمی اشعاراور 1 مزید
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
علم کی ابتدا ہے ہنگامہ
علم کی انتہا ہے خاموشی
آپ نے تصویر بھیجی میں نے دیکھی غور سے
ہر ادا اچھی خموشی کی ادا اچھی نہیں
-
موضوعات : ادااور 1 مزید
خموشی سے مصیبت اور بھی سنگین ہوتی ہے
تڑپ اے دل تڑپنے سے ذرا تسکین ہوتی ہے
خموشی سے ادا ہو رسم دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم
چپ چاپ اپنی آگ میں جلتے رہو فرازؔ
دنیا تو عرض حال سے بے آبرو کرے
اسے بے چین کر جاؤں گا میں بھی
خموشی سے گزر جاؤں گا میں بھی
میری خاموشیوں میں لرزاں ہے
میرے نالوں کی گم شدہ آواز
محبت سوز بھی ہے ساز بھی ہے
خموشی بھی ہے یہ آواز بھی ہے
-
موضوعات : آوازاور 2 مزید
چپ چپ کیوں رہتے ہو ناصرؔ
یہ کیا روگ لگا رکھا ہے
دور خاموش بیٹھا رہتا ہوں
اس طرح حال دل کا کہتا ہوں
چپ رہو تو پوچھتا ہے خیر ہے
لو خموشی بھی شکایت ہو گئی
تمہارے خط میں نظر آئی اتنی خاموشی
کہ مجھ کو رکھنے پڑے اپنے کان کاغذ پر
ہر طرف تھی خاموشی اور ایسی خاموشی
رات اپنے سائے سے ہم بھی ڈر کے روئے تھے
زور قسمت پہ چل نہیں سکتا
خامشی اختیار کرتا ہوں
جو چپ رہا تو وہ سمجھے گا بد گمان مجھے
برا بھلا ہی سہی کچھ تو بول آؤں میں
باقیؔ جو چپ رہوگے تو اٹھیں گی انگلیاں
ہے بولنا بھی رسم جہاں بولتے رہو
مری خاموشیوں پر دنیا مجھ کو طعن دیتی ہے
یہ کیا جانے کہ چپ رہ کر بھی کی جاتی ہیں تقریریں
ہر ایک بات زباں سے کہی نہیں جاتی
جو چپکے بیٹھے ہیں کچھ ان کی بات بھی سمجھو
اثر بھی لے رہا ہوں تیری چپ کا
تجھے قائل بھی کرتا جا رہا ہوں
رنگ درکار تھے ہم کو تری خاموشی کے
ایک آواز کی تصویر بنانی تھی ہمیں
-
موضوعات : تصویراور 1 مزید
نکالے گئے اس کے معنی ہزار
عجب چیز تھی اک مری خامشی
خاموشی میں چاہے جتنا بیگانہ پن ہو
لیکن اک آہٹ جانی پہچانی ہوتی ہے
خامشی تیری مری جان لیے لیتی ہے
اپنی تصویر سے باہر تجھے آنا ہوگا
چھیڑ کر جیسے گزر جاتی ہے دوشیزہ ہوا
دیر سے خاموش ہے گہرا سمندر اور میں
-
موضوعات : سمندراور 1 مزید
ہم نے اول تو کبھی اس کو پکارا ہی نہیں
اور پکارا تو پکارا بھی صداؤں کے بغیر
خموش رہنے کی عادت بھی مار دیتی ہے
تمہیں یہ زہر تو اندر سے چاٹ جائے گا
چٹخ کے ٹوٹ گئی ہے تو بن گئی آواز
جو میرے سینہ میں اک روز خامشی ہوئی تھی
سبب خاموشیوں کا میں نہیں تھا
مرے گھر میں سبھی کم بولتے تھے
جسے صیاد نے کچھ گل نے کچھ بلبل نے کچھ سمجھا
چمن میں کتنی معنی خیز تھی اک خامشی مری
میں چپ رہا کہ وضاحت سے بات بڑھ جاتی
ہزار شیوۂ حسن بیاں کے ہوتے ہوئے
میں تیرے کہے سے چپ ہوں لیکن
چپ بھی تو بیان مدعا ہے
میں ہوں رات کا ایک بجا ہے
خالی رستہ بول رہا ہے
کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ کچھ نہ کہو خاموش رہو
اے لوگو خاموش رہو ہاں اے لوگو خاموش رہو
ہم نہ مانیں گے خموشی ہے تمنا کا مزاج
ہاں بھری بزم میں وہ بول نہ پائی ہوگی
جو سنتا ہوں سنتا ہوں میں اپنی خموشی سے
جو کہتی ہے کہتی ہے مجھ سے مری خاموشی
بہت گہری ہے اس کی خامشی بھی
میں اپنے قد کو چھوٹا پا رہی ہوں
کھلی زبان تو ظرف ان کا ہو گیا ظاہر
ہزار بھید چھپا رکھے تھے خموشی میں
خموشی میں ہر بات بن جائے ہے
جو بولے ہے دیوانہ کہلائے ہے
بول پڑتا تو مری بات مری ہی رہتی
خامشی نے ہیں دئے سب کو فسانے کیا کیا
خامشی چھیڑ رہی ہے کوئی نوحہ اپنا
ٹوٹتا جاتا ہے آواز سے رشتہ اپنا
یہ حاصل ہے مری خاموشیوں کا
کہ پتھر آزمانے لگ گئے ہیں
وہ بولتا تھا مگر لب نہیں ہلاتا تھا
اشارہ کرتا تھا جنبش نہ تھی اشارے میں
ایک دن میری خامشی نے مجھے
لفظ کی اوٹ سے اشارہ کیا
عجیب شور مچانے لگے ہیں سناٹے
یہ کس طرح کی خموشی ہر اک صدا میں ہے