قسمت پر اشعار
قسمت ایک مذہبی تصور
ہے جس کے مطابق انسان اپنے ہرعمل میں پابند ہے ۔ وہ وہی کرتا ہے جو خدا نے اس کی قسمت میں لکھ دیا ہے اور اس کی زندگی کی ساری شکلیں اسی لکھے ہوئے کے مطابق ظہور پزیر ہوتی ہیں ۔ شاعری میں قسمت کے موضوع پر بہت سی باریک اور فلسفیانہ باتیں بھی کی گئی ہیں اور قسمت کا موضوع خالص عشق کے باب میں بھی برتا گیا ہے ۔ اس صورت میں عاشق اپنی قسمت کے برے ہونے پر آنسو بہاتا ہے ۔
دیکھیے کیا دکھاتی ہے تقدیر
چپ کھڑا ہوں گناہ گاروں میں
مقبول ہوں نہ ہوں یہ مقدر کی بات ہے
سجدے کسی کے در پہ کیے جا رہا ہوں میں
روز وہ خواب میں آتے ہیں گلے ملنے کو
میں جو سوتا ہوں تو جاگ اٹھتی ہے قسمت میری
-
موضوع : خواب
عدمؔ روز اجل جب قسمتیں تقسیم ہوتی تھیں
مقدر کی جگہ میں ساغر و مینا اٹھا لایا
میرے حواس عشق میں کیا کم ہیں منتشر
مجنوں کا نام ہو گیا قسمت کی بات ہے
کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
-
موضوع : مشہور اشعار
جستجو کرنی ہر اک امر میں نادانی ہے
جو کہ پیشانی پہ لکھی ہے وہ پیش آنی ہے
ہاتھ میں چاند جہاں آیا مقدر چمکا
سب بدل جائے گا قسمت کا لکھا جام اٹھا
-
موضوعات : چانداور 1 مزید
کسی کے تم ہو کسی کا خدا ہے دنیا میں
مرے نصیب میں تم بھی نہیں خدا بھی نہیں
-
موضوعات : اداسیاور 3 مزید
شاعری ہے سرمایا خوش نصیب لوگوں کا
بانس کی ہر اک ٹہنی بانسری نہیں ہوتی
زور قسمت پہ چل نہیں سکتا
خامشی اختیار کرتا ہوں
بد قسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہو سکا
ہم جس پہ مر مٹے وہ ہمارا نہ ہو سکا
خدا توفیق دیتا ہے جنہیں وہ یہ سمجھتے ہیں
کہ خود اپنے ہی ہاتھوں سے بنا کرتی ہیں تقدیریں
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
نیرنگیٔ سیاست دوراں تو دیکھیے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
ایسی قسمت کہاں کہ جام آتا
بوئے مے بھی ادھر نہیں آئی
یار پر الزام کیسا اے دل خانہ خراب
جو کیا تجھ سے تری قسمت نے اس نے کیا کیا
لکھا ہے جو تقدیر میں ہوگا وہی اے دل
شرمندہ نہ کرنا مجھے تو دست دعا کا
بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں
سنا ہے اب بھی مرے ہاتھ کی لکیروں میں
نجومیوں کو مقدر دکھائی دیتا ہے
اسی کو دشت خزاں نے کیا بہت پامال
جو پھول سب سے حسیں موسم بہار میں تھا
ٹوٹ پڑتی تھیں گھٹائیں جن کی آنکھیں دیکھ کر
وہ بھری برسات میں ترسے ہیں پانی کے لیے
-
موضوع : بارش
کوئی منزل کے قریب آ کے بھٹک جاتا ہے
کوئی منزل پہ پہنچتا ہے بھٹک جانے سے
تدبیر سے قسمت کی برائی نہیں جاتی
بگڑی ہوئی تقدیر بنائی نہیں جاتی
دولت نہیں کام آتی جو تقدیر بری ہو
قارون کو بھی اپنا خزانا نہیں ملتا
بعد مرنے کے مری قبر پہ آیا غافلؔ
یاد آئی مرے عیسیٰ کو دوا میرے بعد
-
موضوع : تغافل
ہم کو نہ مل سکا تو فقط اک سکون دل
اے زندگی وگرنہ زمانے میں کیا نہ تھا
کبھی میری طلب کچے گھڑے پر پار اترتی ہے
کبھی محفوظ کشتی میں سفر کرنے سے ڈرتا ہوں
-
موضوعات : سفراور 1 مزید
کب ہنسا تھا جو یہ کہتے ہو کہ رونا ہوگا
ہو رہے گا مری قسمت میں جو ہونا ہوگا
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
-
موضوعات : انتظاراور 3 مزید
خوش نصیبی میں ہے یہی اک عیب
بد نصیبوں کے گھر نہیں آتی
پھول کھلے ہیں گلشن گلشن
لیکن اپنا اپنا دامن
وصل کی بنتی ہیں ان باتوں سے تدبیریں کہیں
آرزوؤں سے پھرا کرتی ہیں تقدیریں کہیں
-
موضوعات : آرزواور 1 مزید
کبھی میں اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے نہیں الجھا
مجھے معلوم ہے قسمت کا لکھا بھی بدلتا ہے
کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل
کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا
اپنے ماتھے کی شکن تم سے مٹائی نہ گئی
اپنی تقدیر کے بل ہم سے نکالے نہ گئے
عشق نے منصب لکھے جس دن مری تقدیر میں
داغ کی نقدی ملی صحرا ملا جاگیر میں
میری قسمت ہے یہ آوارہ خرامی ساجدؔ
دشت کو راہ نکلتی ہے نہ گھر آتا ہے
-
موضوع : گھر
قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا
-
موضوعات : باماور 1 مزید
جو چل پڑے تھے عزم سفر لے کے تھک گئے
جو لڑکھڑا رہے تھے وہ منزل پہ آئے ہیں
کھو دیا تم کو تو ہم پوچھتے پھرتے ہیں یہی
جس کی تقدیر بگڑ جائے وہ کرتا کیا ہے
میں جاں بلب ہوں اے تقدیر تیرے ہاتھوں سے
کہ تیرے آگے مری کچھ نہ چل سکی تدبیر