Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

قسمت پر اشعار

قسمت ایک مذہبی تصور

ہے جس کے مطابق انسان اپنے ہرعمل میں پابند ہے ۔ وہ وہی کرتا ہے جو خدا نے اس کی قسمت میں لکھ دیا ہے اور اس کی زندگی کی ساری شکلیں اسی لکھے ہوئے کے مطابق ظہور پزیر ہوتی ہیں ۔ شاعری میں قسمت کے موضوع پر بہت سی باریک اور فلسفیانہ باتیں بھی کی گئی ہیں اور قسمت کا موضوع خالص عشق کے باب میں بھی برتا گیا ہے ۔ اس صورت میں عاشق اپنی قسمت کے برے ہونے پر آنسو بہاتا ہے ۔

دیکھیے کیا دکھاتی ہے تقدیر

چپ کھڑا ہوں گناہ گاروں میں

لالہ مادھو رام جوہر

مقبول ہوں نہ ہوں یہ مقدر کی بات ہے

سجدے کسی کے در پہ کیے جا رہا ہوں میں

جوشؔ ملسیانی

روز وہ خواب میں آتے ہیں گلے ملنے کو

میں جو سوتا ہوں تو جاگ اٹھتی ہے قسمت میری

جلیل مانک پوری

عدمؔ روز اجل جب قسمتیں تقسیم ہوتی تھیں

مقدر کی جگہ میں ساغر و مینا اٹھا لایا

عبد الحمید عدم

میرے حواس عشق میں کیا کم ہیں منتشر

مجنوں کا نام ہو گیا قسمت کی بات ہے

اکبر الہ آبادی

کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے

دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

بہادر شاہ ظفر

یہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملا

کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا

ظفر اقبال

کبھی سایہ ہے کبھی دھوپ مقدر میرا

ہوتا رہتا ہے یوں ہی قرض برابر میرا

اطہر نفیس

جستجو کرنی ہر اک امر میں نادانی ہے

جو کہ پیشانی پہ لکھی ہے وہ پیش آنی ہے

امام بخش ناسخ

ہاتھ میں چاند جہاں آیا مقدر چمکا

سب بدل جائے گا قسمت کا لکھا جام اٹھا

بشیر بدر

کسی کے تم ہو کسی کا خدا ہے دنیا میں

مرے نصیب میں تم بھی نہیں خدا بھی نہیں

اختر سعید خان

تجھ سے قسمت میں مری صورت قفل ابجد

تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا

مرزا غالب

شاعری ہے سرمایا خوش نصیب لوگوں کا

بانس کی ہر اک ٹہنی بانسری نہیں ہوتی

ہستی مل ہستی

زور قسمت پہ چل نہیں سکتا

خامشی اختیار کرتا ہوں

عزیز حیدرآبادی

بد قسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہو سکا

ہم جس پہ مر مٹے وہ ہمارا نہ ہو سکا

شکیب جلالی

خدا توفیق دیتا ہے جنہیں وہ یہ سمجھتے ہیں

کہ خود اپنے ہی ہاتھوں سے بنا کرتی ہیں تقدیریں

نامعلوم

تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے

ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا

مومن خاں مومن

نیرنگیٔ سیاست دوراں تو دیکھیے

منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

محسنؔ بھوپالی

ایسی قسمت کہاں کہ جام آتا

بوئے مے بھی ادھر نہیں آئی

مضطر خیرآبادی

یار پر الزام کیسا اے دل خانہ خراب

جو کیا تجھ سے تری قسمت نے اس نے کیا کیا

لالہ مادھو رام جوہر

لکھا ہے جو تقدیر میں ہوگا وہی اے دل

شرمندہ نہ کرنا مجھے تو دست دعا کا

آغا حجو شرف

بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ

قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں

بہادر شاہ ظفر

اتنا بھی بار خاطر گلشن نہ ہو کوئی

ٹوٹی وہ شاخ جس پہ مرا آشیانہ تھا

مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی

سنا ہے اب بھی مرے ہاتھ کی لکیروں میں

نجومیوں کو مقدر دکھائی دیتا ہے

امیر قزلباش

اسی کو دشت خزاں نے کیا بہت پامال

جو پھول سب سے حسیں موسم بہار میں تھا

جنید حزیں لاری

ٹوٹ پڑتی تھیں گھٹائیں جن کی آنکھیں دیکھ کر

وہ بھری برسات میں ترسے ہیں پانی کے لیے

سجاد باقر رضوی

کوئی منزل کے قریب آ کے بھٹک جاتا ہے

کوئی منزل پہ پہنچتا ہے بھٹک جانے سے

قصری کانپوری

تدبیر سے قسمت کی برائی نہیں جاتی

بگڑی ہوئی تقدیر بنائی نہیں جاتی

داغؔ دہلوی

دولت نہیں کام آتی جو تقدیر بری ہو

قارون کو بھی اپنا خزانا نہیں ملتا

مرزارضا برق ؔ

بعد مرنے کے مری قبر پہ آیا غافلؔ

یاد آئی مرے عیسیٰ کو دوا میرے بعد

منور خان غافل

ہم کو نہ مل سکا تو فقط اک سکون دل

اے زندگی وگرنہ زمانے میں کیا نہ تھا

آزاد انصاری

کبھی میری طلب کچے گھڑے پر پار اترتی ہے

کبھی محفوظ کشتی میں سفر کرنے سے ڈرتا ہوں

فرید پربتی

کب ہنسا تھا جو یہ کہتے ہو کہ رونا ہوگا

ہو رہے گا مری قسمت میں جو ہونا ہوگا

نامعلوم

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

مرزا غالب

خوش نصیبی میں ہے یہی اک عیب

بد نصیبوں کے گھر نہیں آتی

رسا جالندھری

پھول کھلے ہیں گلشن گلشن

لیکن اپنا اپنا دامن

جگر مراد آبادی

وصل کی بنتی ہیں ان باتوں سے تدبیریں کہیں

آرزوؤں سے پھرا کرتی ہیں تقدیریں کہیں

حسرتؔ موہانی

کبھی میں اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے نہیں الجھا

مجھے معلوم ہے قسمت کا لکھا بھی بدلتا ہے

بشیر بدر

کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل

کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا

احمد فراز

اپنے ماتھے کی شکن تم سے مٹائی نہ گئی

اپنی تقدیر کے بل ہم سے نکالے نہ گئے

جلیل مانک پوری

عشق نے منصب لکھے جس دن مری تقدیر میں

داغ کی نقدی ملی صحرا ملا جاگیر میں

بقا اللہ بقاؔ

میری قسمت ہے یہ آوارہ خرامی ساجدؔ

دشت کو راہ نکلتی ہے نہ گھر آتا ہے

غلام حسین ساجد

قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند

کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا

قائم چاندپوری

جو چل پڑے تھے عزم سفر لے کے تھک گئے

جو لڑکھڑا رہے تھے وہ منزل پہ آئے ہیں

حیرت سہروردی

ہمیشہ تنکے ہی چنتے گزر گئی اپنی

مگر چمن میں کہیں آشیاں بنا نہ سکے

مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی

کھو دیا تم کو تو ہم پوچھتے پھرتے ہیں یہی

جس کی تقدیر بگڑ جائے وہ کرتا کیا ہے

فراق گورکھپوری

میں جاں بلب ہوں اے تقدیر تیرے ہاتھوں سے

کہ تیرے آگے مری کچھ نہ چل سکی تدبیر

شیخ ظہور الدین حاتم

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے