زخم پر اشعار
سنا ہے شہر میں زخمی دلوں کا میلہ ہے
چلیں گے ہم بھی مگر پیرہن رفو کر کے
اس طرف سے گزرے تھے قافلے بہاروں کے
آج تک سلگتے ہیں زخم رہ گزاروں کے
خاموشی کے ناخن سے چھل جایا کرتے ہیں
کوئی پھر ان زخموں پر آوازیں ملتا ہے
-
موضوعات : آوازاور 1 مزید
میں تیرے ہدیۂ فرقت پہ کیسے نازاں ہوں
مری جبیں پہ ترا زخم تک حسین نہیں
شاخ مژگاں پہ مہکنے لگے زخموں کے گلاب
پچھلے موسم کی ملاقات کی بو زندہ ہے
یہ آس بہت ہے کہ ترے دست ستم سے
جتنے بھی ملے گھاؤ ہیں بھر جائیں گے اک دن