ابراہیم اشکؔ
غزل 18
اشعار 19
بکھرے ہوئے تھے لوگ خود اپنے وجود میں
انساں کی زندگی کا عجب بندوبست تھا
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
تری زمیں سے اٹھیں گے تو آسماں ہوں گے
ہم ایسے لوگ زمانے میں پھر کہاں ہوں گے
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
خود اپنے آپ سے لینا تھا انتقام مجھے
میں اپنے ہاتھ کے پتھر سے سنگسار ہوا
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
چلے گئے تو پکارے گی ہر صدا ہم کو
نہ جانے کتنی زبانوں سے ہم بیاں ہوں گے
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
کریں سلام اسے تو کوئی جواب نہ دے
الٰہی اتنا بھی اس شخص کو حجاب نہ دے
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
دوہا 3
پیاسی دھرتی دیکھ کے بادل اڑ اڑ جائے
یہ دنیا کی ریت ہے ترسے کو ترسائے
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
من کے اندر پی بسے پی کے اندر پریت
خود میں اتنا ڈوب جا مل جائے گا میت
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
پتھر میں بھی آگ ہے چھیڑو تو جل جائے
جو اس آگ میں تپ گیا وہ ہیرا کہلائے
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
کتاب 17
تصویری شاعری 2
ویڈیو 16
This video is playing from YouTube
