نصیر ترابی
غزل 17
اشعار 20
عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
ملنے کی طرح مجھ سے وہ پل بھر نہیں ملتا
دل اس سے ملا جس سے مقدر نہیں ملتا
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
شہر میں کس سے سخن رکھیے کدھر کو چلیے
اتنی تنہائی تو گھر میں بھی ہے گھر کو چلیے
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
کچھ روز نصیر آؤ چلو گھر میں رہا جائے
لوگوں کو یہ شکوہ ہے کہ گھر پر نہیں ملتا
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل
غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
سلام 1
تصویری شاعری 4
درد کی دھوپ سے چہرے کو نکھر جانا تھا آئنہ دیکھنے والے تجھے مر جانا تھا راہ میں ایسے نقوش_کف_پا بھی آئے میں نے دانستہ جنہیں گرد_سفر جانا تھا وہم_و_ادراک کے ہر موڑ پہ سوچا میں نے تو کہاں ہے مرے ہم_راہ اگر جانا تھا آگہی زخم_نظارہ نہ بنی تھی جب تک میں نے ہر شخص کو محبوب_نظر جانا تھا قربتیں ریت کی دیوار ہیں گر سکتی ہیں مجھ کو خود اپنے ہی سائے میں ٹھہر جانا تھا تو کہ وہ تیز ہوا جس کی تمنا بے_سود میں کہ وہ خاک جسے خود ہی بکھر جانا تھا آنکھ ویران سہی پھر بھی اندھیروں کو نصیرؔ روشنی بن کے مرے دل میں اتر جانا تھا
ویڈیو 52
