Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سایہ پر اشعار

سایہ شاعری ہی کیا عام

زندگی میں بھی سکون اور راحت کی ایک علامت ہے ۔ جس میں جاکر آدمی دھوپ کی شدت سے بچتا ہے اور سکون کی سانسیں لیتا ہے ۔ البتہ شاعری میں سایہ اور دھوپ کی شدت زندگی کی کثیر صورتوں کیلئے ایک علامت کے طور پر برتی گئی ہے ۔ یہاں سایہ صرف دیوار یا کسی پیڑ کا ہی سایہ نہیں رہتا بلکہ اس کی صورتیں بہت متنوع ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح دھوپ صرف سورج ہی کی نہیں بلکہ زندگی کی تمام ترتکلیف دہ اور منفی صورتوں کا استعارہ بن جاتی ہے ۔

مرے سائے میں اس کا نقش پا ہے

بڑا احسان مجھ پر دھوپ کا ہے

فہمی بدایونی

تجھ سے جدا ہوئے تو یہ ہو جائیں گے جدا

باقی کہاں رہیں گے یہ سائے ترے بغیر

عدیل زیدی

رشتے ناطے ٹوٹے پھوٹے لگے ہیں

جب بھی اپنا سایہ ساتھ نہیں ہوتا

حنیف ترین

دھوپ مجھ کو جو لیے پھرتی ہے سائے سائے

ہے تو آوارہ مگر ذہن میں گھر رکھتی ہے

طاہر فراز

قدم قدم کوئی سایہ سا متصل تو رہے

سراب کا یہ سر سلسلہ دراز تو ہو

گوہر ہوشیارپوری

کوئی تصویر مکمل نہیں ہونے پاتی

دھوپ دیتے ہیں تو سایا نہیں رہنے دیتے

احمد مشتاق

وہ وحشی اس قدر بھڑکا ہے صورت سے مرے یارو

کہ اپنے دیکھ سائے کو مجھے ہم راہ جانے ہے

شیخ ظہور الدین حاتم

ہم ترے سائے میں کچھ دیر ٹھہرتے کیسے

ہم کو جب دھوپ سے وحشت نہیں کرنی آئی

عابدہ کرامت

ہم ایک فکر کے پیکر ہیں اک خیال کے پھول

ترا وجود نہیں ہے تو میرا سایا نہیں

فارغ بخاری

سبھی انساں فرشتے ہو گئے ہیں

کسی دیوار میں سایہ نہیں ہے

بمل کرشن اشک

وہ تپش ہے کہ جل اٹھے سائے

دھوپ رکھی تھی سائبان میں کیا

خالدہ عظمی

دھوپ بڑھتے ہی جدا ہو جائے گا

سایۂ دیوار بھی دیوار سے

بہرام طارق

وہ مرے ساتھ ہے سائے کی طرح

دل کی ضد ہے کہ نظر بھی آئے

محمود ایاز

تاریکیوں نے خود کو ملایا ہے دھوپ میں

سایہ جو شام کا نظر آیا ہے دھوپ میں

طاہر فراز

روشنی میں اپنی شخصیت پہ جب بھی سوچنا

اپنے قد کو اپنے سائے سے بھی کم تر دیکھنا

حمایت علی شاعر

پیڑ کے کاٹنے والوں کو یہ معلوم تو تھا

جسم جل جائیں گے جب سر پہ نہ سایہ ہوگا

کیفی اعظمی

سایہ بھی ساتھ چھوڑ گیا اب تو اے اثرؔ

پھر کس لیے میں آج کو کل سے جدا کروں

اثر اکبرآبادی

عجیب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو

میں اپنے سائے سے کل رات ڈر گیا یارو

شہریار

زندگی دھوپ میں آنے سے کھلی

سایہ دیوار اٹھانے سے کھلا

کاشف حسین غائر

کب دھوپ چلی شام ڈھلی کس کو خبر ہے

اک عمر سے میں اپنے ہی سائے میں کھڑا ہوں

اختر ہوشیارپوری

ڈھلتے سورج کی تمازت نے بکھر کر دیکھا

سر کشیدہ مرا سایا صف اشجار کے بیچ

محسن نقوی

اس دشت سخن میں کوئی کیا پھول کھلائے

چمکی جو ذرا دھوپ تو جلنے لگے سائے

حمایت علی شاعر

لوگ کہتے ہیں کہ سایا ترے پیکر کا نہیں

میں تو کہتا ہوں زمانے پہ ہے سایا تیرا

احمد ندیم قاسمی

آسماں ایک سلگتا ہوا صحرا ہے جہاں

ڈھونڈھتا پھرتا ہے خود اپنا ہی سایا سورج

آزاد گلاٹی

وہ اور ہوں گے جو کار ہوس پہ زندہ ہیں

میں اس کی دھوپ سے سایہ بدل کے آیا ہوں

اکبر معصوم

کسی کی راہ میں آنے کی یہ بھی صورت ہے

کہ سایہ کے لیے دیوار ہو لیا جائے

غلام مرتضی راہی

دھوپ بولی کہ میں آبائی وطن ہوں تیرا

میں نے پھر سایۂ دیوار کو زحمت نہیں دی

فرحت احساس

یاروں نے میری راہ میں دیوار کھینچ کر

مشہور کر دیا کہ مجھے سایہ چاہئے

غلام مرتضی راہی

زاویہ دھوپ نے کچھ ایسا بنایا ہے کہ ہم

سائے کو جسم کی جنبش سے جدا دیکھتے ہیں

عاصم واسطی

دھوپ جوانی کا یارانہ اپنی جگہ

تھک جاتا ہے جسم تو سایہ مانگتا ہے

اعجاز گل

دھوپ سائے کی طرح پھیل گئی

ان درختوں کی دعا لینے سے

کاشف حسین غائر

ذرا یہ دھوپ ڈھل جائے تو ان کا حال پوچھیں گے

یہاں کچھ سائے اپنے آپ کو پیکر بتاتے ہیں

خوشبیر سنگھ شادؔ

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے