aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بوسہ پر اشعار

بوسہ پر شاعری عاشق کی

بوسے کی طلب کی کیفیتوں کا بیانیہ ہے ، ساتھ ہی اس میں معشوق کے انکار کی مزے دار صورتیں بھی شامل ہو جاتی ہیں ۔ یہ طلب اور انکار کا ایک جھگڑا ہے جسے شاعروں کے تخیل نے بےحد رنگین اور دلچسپ بنادیا ہے ۔ اس مضمون میں شوخی ، مزاح ، حسرت اور غصے کی ملی جلی کیفیتوں نے ایک اور ہی فضا پیدا کی ہے ۔ ہمارا یہ چھوٹا سا انتخاب پڑھئے اور ان کیفیتوں کو محسوس کیجئے۔

ایک بوسے کے طلب گار ہیں ہم

اور مانگیں تو گنہ گار ہیں ہم

نامعلوم

بے خودی میں لے لیا بوسہ خطا کیجے معاف

یہ دل بیتاب کی ساری خطا تھی میں نہ تھا

میرزا ابوالمظفر ظفر

دھمکا کے بوسے لوں گا رخ رشک ماہ کا

چندا وصول ہوتا ہے صاحب دباؤ سے

اکبر الہ آبادی

مل گئے تھے ایک بار اس کے جو میرے لب سے لب

عمر بھر ہونٹوں پہ اپنے میں زباں پھیرا کیے

جرأت قلندر بخش

بوسۂ رخسار پر تکرار رہنے دیجیے

لیجیے یا دیجیے انکار رہنے دیجیے

حفیظ جونپوری

بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ

جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے

مرزا غالب

بوسہ جو رخ کا دیتے نہیں لب کا دیجئے

یہ ہے مثل کہ پھول نہیں پنکھڑی سہی

شیخ ابراہیم ذوقؔ

ایک بوسہ ہونٹ پر پھیلا تبسم بن گیا

جو حرارت تھی مری اس کے بدن میں آ گئی

کاوش بدری

دکھا کے جنبش لب ہی تمام کر ہم کو

نہ دے جو بوسہ تو منہ سے کہیں جواب تو دے

مرزا غالب

بوسے اپنے عارض گلفام کے

لا مجھے دے دے ترے کس کام کے

مضطر خیرآبادی

بدن کا سارا لہو کھنچ کے آ گیا رخ پر

وہ ایک بوسہ ہمیں دے کے سرخ رو ہے بہت

ظفر اقبال

لجا کر شرم کھا کر مسکرا کر

دیا بوسہ مگر منہ کو بنا کر

نامعلوم

بوسہ جو طلب میں نے کیا ہنس کے وہ بولے

یہ حسن کی دولت ہے لٹائی نہیں جاتی

نامعلوم

بے گنتی بوسے لیں گے رخ دل پسند کے

عاشق ترے پڑھے نہیں علم حساب کو

حیدر علی آتش

بوسہ لیا جو اس لب شیریں کا مر گئے

دی جان ہم نے چشمۂ آب حیات پر

امیر مینائی

بوسے بیوی کے ہنسی بچوں کی آنکھیں ماں کی

قید خانے میں گرفتار سمجھئے ہم کو

فضیل جعفری

محبت ایک پاکیزہ عمل ہے اس لیے شاید

سمٹ کر شرم ساری ایک بوسے میں چلی آئی

منور رانا

کیا قیامت ہے کہ عارض ان کے نیلے پڑ گئے

ہم نے تو بوسہ لیا تھا خواب میں تصویر کا

نامعلوم

آتا ہے جی میں ساقئ مہ وش پہ بار بار

لب چوم لوں ترا لب پیمانہ چھوڑ کر

جلیل مانک پوری

بوسہ ہونٹوں کا مل گیا کس کو

دل میں کچھ آج درد میٹھا ہے

منیرؔ  شکوہ آبادی

لے لو بوسہ اپنا واپس کس لیے تکرار کی

کیا کوئی جاگیر ہم نے چھین لی سرکار کی

اکبر میرٹھی

لب نازک کے بوسے لوں تو مسی منہ بناتی ہے

کف پا کو اگر چوموں تو مہندی رنگ لاتی ہے

آسی غازی پوری

کیا خوب تم نے غیر کو بوسہ نہیں دیا

بس چپ رہو ہمارے بھی منہ میں زبان ہے

مرزا غالب

جس لب کے غیر بوسے لیں اس لب سے شیفتہؔ

کمبخت گالیاں بھی نہیں میرے واسطے

مصطفیٰ خاں شیفتہ

بوسہ تو اس لب شیریں سے کہاں ملتا ہے

گالیاں بھی ملیں ہم کو تو ملیں تھوڑی سی

نظام رامپوری

نہ ہو برہم جو بوسہ بے اجازت لے لیا میں نے

چلو جانے دو بیتابی میں ایسا ہو ہی جاتا ہے

جلالؔ لکھنوی

میں آ رہا ہوں ابھی چوم کر بدن اس کا

سنا تھا آگ پہ بوسہ رقم نہیں ہوتا

شناور اسحاق

بجھے لبوں پہ ہے بوسوں کی راکھ بکھری ہوئی

میں اس بہار میں یہ راکھ بھی اڑا دوں گا

ساقی فاروقی

کیا تاب کیا مجال ہماری کہ بوسہ لیں

لب کو تمہارے لب سے ملا کر کہے بغیر

بہادر شاہ ظفر

ہم کو گالی کے لیے بھی لب ہلا سکتے نہیں

غیر کو بوسہ دیا تو منہ سے دکھلا کر دیا

عادل منصوری

اس لب سے مل ہی جائے گا بوسہ کبھی تو ہاں

شوق فضول و جرأت رندانہ چاہئے

مرزا غالب

لب خیال سے اس لب کا جو لیا بوسہ

تو منہ ہی منہ میں عجب طرح کا مزا آیا

جرأت قلندر بخش

سبھی انعام نت پاتے ہیں اے شیریں دہن تجھ سے

کبھو تو ایک بوسے سے ہمارا منہ بھی میٹھا کر

جرأت قلندر بخش

دل لگی میں حسرت دل کچھ نکل جاتی تو ہے

بوسے لے لیتے ہیں ہم دو چار ہنستے بولتے

منشی امیر اللہ تسلیم

بوساں لباں سیں دینے کہا کہہ کے پھر گیا

پیالہ بھرا شراب کا افسوس گر گیا

آبرو شاہ مبارک

رخسار پر ہے رنگ حیا کا فروغ آج

بوسے کا نام میں نے لیا وہ نکھر گئے

حکیم محمد اجمل خاں شیدا

بوسہ آنکھوں کا جو مانگا تو وہ ہنس کر بولے

دیکھ لو دور سے کھانے کے یہ بادام نہیں

امانت لکھنوی

سادگی دیکھ کہ بوسے کی طمع رکھتا ہوں

جن لبوں سے کہ میسر نہیں دشنام مجھے

مصحفی غلام ہمدانی

جو ان کو لپٹا کے گال چوما حیا سے آنے لگا پسینہ

ہوئی ہے بوسوں کی گرم بھٹی کھنچے نہ کیوں کر شراب عارض

احمد حسین مائل

جی اٹھوں پھر کر اگر تو ایک بوسہ دے مجھے

چوسنا لب کا ترے ہے مجھ کو جوں آب حیات

شیخ ظہور الدین حاتم

بوسہ کیسا یہی غنیمت ہے

کہ نہ سمجھے وہ لذت دشنام

مرزا غالب

ہم تو کیوں کر کہیں کہ بوسہ دو

گر عنایت کرو عنایت ہے

حکیم دہلوی

گڑ سیں میٹھا ہے بوسہ تجھ لب کا

اس جلیبی میں قند و شکر ہے

فائز دہلوی

لٹاتے ہیں وہ دولت حسن کی باور نہیں آتا

ہمیں تو ایک بوسہ بھی بڑی مشکل سے ملتا ہے

جلیل مانک پوری

نمکیں گویا کباب ہیں پھیکے شراب کے

بوسا ہے تجھ لباں کا مزیدار چٹ پٹا

آبرو شاہ مبارک

بولے وہ بوسہ ہائے پیہم پر

ارے کمبخت کچھ حساب بھی ہے

حسن بریلوی

جی میں ہے اتنے بوسے لیجے کہ آج

مہر اس کے وہاں سے اٹھ جاوے

مصحفی غلام ہمدانی

رکھے ہے لذت بوسہ سے مجھ کو گر محروم

تو اپنے تو بھی نہ ہونٹوں تلک زباں پہنچا

جرأت قلندر بخش

بوسے میں ہونٹ الٹا عاشق کا کاٹ کھایا

تیرا دہن مزے سیں پر ہے پے ہے کٹورا

آبرو شاہ مبارک

اس وقت دل پہ کیوں کے کہوں کیا گزر گیا

بوسہ لیتے لیا تو سہی لیک مر گیا

آبرو شاہ مبارک

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے