Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ترغیبی پر اشعار

ترغیبی شاعری زندگی کی

مشکل گھڑیوں میں ایک سہارے کےطور پرسامنےآتی ہے اوراسے پڑھ کرایک حوصلہ ملتا ہے ۔ یہ مشکل گھڑیاں عشق میں ہجرکی بھی ہوسکتی ہیں اورعام زندگی سے متعلق بھی ۔ یہ شاعری زندگی کے ان تمام مراحل سے گزرنے اورایک روشنی دریافت کرلینے کی قوت پیدا کرتی ہے۔

جہاں پہنچ کے قدم ڈگمگائے ہیں سب کے

اسی مقام سے اب اپنا راستا ہوگا

عابد ادیب

آباد اگر نہ دل ہو تو برباد کیجیے

گلشن نہ بن سکے تو بیاباں بنائیے

جگر مراد آبادی

نگہ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز

یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے

علامہ اقبال

گمشدگی ہی اصل میں یارو راہ نمائی کرتی ہے

راہ دکھانے والے پہلے برسوں راہ بھٹکتے ہیں

حفیظ بنارسی

راستہ سوچتے رہنے سے کدھر بنتا ہے

سر میں سودا ہو تو دیوار میں در بنتا ہے

جلیل عالیؔ

جلانے والے جلاتے ہی ہیں چراغ آخر

یہ کیا کہا کہ ہوا تیز ہے زمانے کی

جمیلؔ مظہری

مرے ناخدا نہ گھبرا یہ نظر ہے اپنی اپنی

ترے سامنے ہے طوفاں مرے سامنے کنارا

فاروق بانسپاری

ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن

تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

تشریح

یہ شعر اسرارالحق مجاز کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ ماتھے پہ آنچل ہونے کے کئی معنی ہیں۔ مثلاً شرم وحیا ہونا، اقدار کا پاس ہوناوغیرہ اور ہندوستانی معاشرے میں ان چیزوں کو عورت کا زیور سمجھا جاتا ہے۔مگر جب عورت کے اس زیور کو مرد اساس معاشرے میں عورت کی کمزوری سمجھا جاتا ہے تو عورت کی شخصیت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ شاعر نے اسی حقیقت کو اپنے شعر کا مضمون بنایا ہے۔ شاعر عورت سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ اگرچہ تمہارے ماتھے پر شرم و حیا کا آنچل خوب لگتا ہے مگر اسے اپنی کمزوری مت بنا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ تم اپنے آنچل سے انقلاب کا پرچم بنا اور اپنے حقوق کے لئے اس پرچم کو بلند کرو۔

شفق سوپوری

اسرار الحق مجاز

پیدا وہ بات کر کہ تجھے روئیں دوسرے

رونا خود اپنے حال پہ یہ زار زار کیا

مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی

کپڑے سفید دھو کے جو پہنے تو کیا ہوا

دھونا وہی جو دل کی سیاہی کو دھوئیے

شیخ ظہور الدین حاتم

کیسے آکاش میں سوراخ نہیں ہو سکتا

ایک پتھر تو طبیعت سے اچھالو یارو

دشینت کمار

مت بیٹھ آشیاں میں پروں کو سمیٹ کر

کر حوصلہ کشادہ فضا میں اڑان کا

محفوظ الرحمان عادل

جادہ جادہ چھوڑ جاؤ اپنی یادوں کے نقوش

آنے والے کارواں کے رہنما بن کر چلو

عزیز بگھروی

نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا

ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا

راحت اندوری

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر

تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

علامہ اقبال

اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے

کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے

عرفان صدیقی

رنگ محفل چاہتا ہے اک مکمل انقلاب

چند شمعوں کے بھڑکنے سے سحر ہوتی نہیں

قابل اجمیری

ابھی سے پاؤں کے چھالے نہ دیکھو

ابھی یارو سفر کی ابتدا ہے

اعجاز رحمانی

خیر سے رہتا ہے روشن نام نیک

حشر تک جلتا ہے نیکی کا چراغ

ظہیرؔ دہلوی

مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا

اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا

امیر قزلباش

لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ سب کو

مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں

اکبر الہ آبادی

میں نے ہر تخریب میں دیکھی ہے اک تعمیر بھی

میرا مٹ جانا بھی ہے ہمت فزا میرے لیے

سوز ہوشیارپوری

بڑھتے چلے گئے جو وہ منزل کو پا گئے

میں پتھروں سے پاؤں بچانے میں رہ گیا

عمیر منظر

گو آبلے ہیں پاؤں میں پھر بھی اے رہروو

منزل کی جستجو ہے تو جاری رہے سفر

نور قریشی

پیاسو رہو نہ دشت میں بارش کے منتظر

مارو زمیں پہ پاؤں کہ پانی نکل پڑے

اقبال ساجد

ناز کیا اس پہ جو بدلا ہے زمانے نے تمہیں

مرد ہیں وہ جو زمانے کو بدل دیتے ہیں

اکبر الہ آبادی

ہر مصیبت کا دیا ایک تبسم سے جواب

اس طرح گردش دوراں کو رلایا میں نے

فانی بدایونی

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

علامہ اقبال

غریبی امیری ہے قسمت کا سودا

ملو آدمی کی طرح آدمی سے

حیرت گونڈوی

ہو نہ مایوس خدا سے بسملؔ

یہ برے دن بھی گزر جائیں گے

بسمل عظیم آبادی

لوگ چن لیں جس کی تحریریں حوالوں کے لیے

زندگی کی وہ کتاب معتبر ہو جائیے

ابو المجاہد زاہد

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا

راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

فیض احمد فیض

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

بسمل عظیم آبادی

چراغ راہ گزر لاکھ تابناک سہی

جلا کے اپنا دیا روشنی مکان میں لا

اکبر حیدرآبادی

کانٹے بونے والے سچ مچ تو بھی کتنا بھولا ہے

جیسے راہی رک جائیں گے تیرے کانٹے بونے سے

مظفر حنفی

چاہئے خود پہ یقین کامل

حوصلہ کس کا بڑھاتا ہے کوئی

شکیل بدایونی

ہار ہو جاتی ہے جب مان لیا جاتا ہے

جیت تب ہوتی ہے جب ٹھان لیا جاتا ہے

شکیل اعظمی

مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا

مجھے سر مار کر تیشے سے مر جانا نہیں آتا

یگانہ چنگیزی

نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر

پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا

بہادر شاہ ظفر

ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیں

وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں

ساحر لدھیانوی

لکیریں کھینچتے رہنے سے بن گئی تصویر

کوئی بھی کام ہو، بے کار تھوڑی ہوتا ہے

خالد معین

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

مجروح سلطانپوری

یہ کہہ کے دل نے مرے حوصلے بڑھائے ہیں

غموں کی دھوپ کے آگے خوشی کے سائے ہیں

ماہر القادری

اخترؔ گزرتے لمحوں کی آہٹ پہ یوں نہ چونک

اس ماتمی جلوس میں اک زندگی بھی ہے

اختر ہوشیارپوری

آستاں بھی کوئی مل جائے گا اے ذوق نیاز

سر سلامت ہے تو سجدہ بھی ادا ہو جائے گا

جگر بریلوی

اتنا سچ بول کہ ہونٹوں کا تبسم نہ بجھے

روشنی ختم نہ کر آگے اندھیرا ہوگا

ندا فاضلی

دولت دنیا نہیں جانے کی ہرگز تیرے ساتھ

بعد تیرے سب یہیں اے بے خبر بٹ جائے گی

بہادر شاہ ظفر

ہم کو مٹا سکے یہ زمانہ میں دم نہیں

ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

جگر مراد آبادی

دشمنی کا سفر اک قدم دو قدم

تم بھی تھک جاؤ گے ہم بھی تھک جائیں گے

بشیر بدر

بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو

ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو

میر تقی میر

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے