آبلہ پر اشعار
ایک شاعر دو سطحوں
پر زندگی گزارتا ہے . ایک تو وہ جسے اس کی مادی زندگی کا نام دیا جا سکتا ہے اور دوسری تخلیق اور تخیل کی سطح پر ۔ یہ دوسری زندگی اس کی اپنی بھی ہوتی ہے اور ساتھ ہی اس کے ذریعے تخلیق کئے جانے والے کرداروں کی بھی ۔ آبلہ پائی اس کی اسی دوسری زندگی کا مقدر ہے ۔ کلاسیکی شاعری میں عاشق کو خانماں خراب ہونا ہی ہوتا ہے ، وہ بیابانوں کی خاک اڑاتا ہے ، گریباں چاک کرتا ہے . ہجرکی یہ حالتیں ہی اس کے لئے عشق کی معراج ہوتی ہیں ۔ جدید شعری تجربے میں آبلہ پائی دکھ کے ایک وسیع استعارے کے طور پر بھی برتا گیا ہے ۔
ابھی سے پاؤں کے چھالے نہ دیکھو
ابھی یارو سفر کی ابتدا ہے
جن کے ہونٹوں پہ ہنسی پاؤں میں چھالے ہوں گے
ہاں وہی لوگ تمہیں چاہنے والے ہوں گے
آبلہ پا کوئی اس دشت میں آیا ہوگا
ورنہ آندھی میں دیا کس نے جلایا ہوگا
-
موضوع : چراغ
دونوں کا ملنا مشکل ہے دونوں ہیں مجبور بہت
اس کے پاؤں میں مہندی لگی ہے میرے پاؤں میں چھالے ہیں
-
موضوع : حنا
شکوۂ آبلہ ابھی سے میرؔ
ہے پیارے ہنوز دلی دور
خوش ہیں تو پھر مسافر دنیا نہیں ہیں آپ
اس دشت میں بس آبلہ پائی ہے روئیے
سفر میں ہر قدم رہ رہ کے یہ تکلیف ہی دیتے
بہر صورت ہمیں ان آبلوں کو پھوڑ دینا تھا
-
موضوع : خود_اذیتی
اے مرے پاؤں کے چھالو مرے ہمراہ رہو
امتحاں سخت ہے تم چھوڑ کے جاتے کیوں ہو
مجھے یقیں تو بہت تھا مگر غلط نکلا
کہ آبلہ کبھی پاپوش میں نہیں آتا
راستہ پانی مانگتا ہے
اپنے پاؤں کا چھالا مار
کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یا رب
اک آبلہ پا وادی پر خار میں آوے
ظلم پر ظلم آ گئے غالب
آبلے آبلوں کو چھوڑ گئے
تیز رکھیو سر ہر خار کو اے دشت جنوں
شاید آ جائے کوئی آبلہ پا میرے بعد
آؤ تقریب رو نمائی کریں
پاؤں میں ایک آبلہ ہوا ہے
دل کے ہر جزو میں جدائی ہے
درد اٹھے آبلہ اگر بیٹھے
اک آبلہ تھا سو بھی گیا خار غم سے پھٹ
تیری گرہ میں کیا دل اندوہ گیں رہا
بے تکلف مقام الفت ہے
داغ اٹھے کہ آبلہ بیٹھے
ہے جب تک دشت پیمائی سلامت
رہے گی آبلہ پائی سلامت
جب اس میں خوں رہا نہ تو یہ دل کا آبلہ
ہو خشک جیسے دانۂ انگور رہ گیا
خار چبھ کر جو ٹوٹتا ہے کبھی
آبلہ پھوٹ پھوٹ روتا ہے
بچے گا نہ کاوش سے مژگاں کے دل
کہ نشتر بہت آبلہ ایک ہے
ہم آبلہ بن رہے ہیں ہم کو
اک جنبش نیشتر بہت ہے
خاک صحرائے جنوں نرم ہے ریشم کی طرح
آبلہ ہے نہ کوئی آبلہ پا میرے بعد
لگائی کس بت مے نوش نے ہے تاک اس پر
سبو بہ دوش ہے ساقی جو آبلہ دل کا
جو مجھ آتش نفس نے منہ لگایا اس کو اے ساقی
ابھی ہونے لگیں گے آبلے محسوس شیشے میں