حوصلہ پر اشعار
شاعری کاعلاقہ بہت وسیع
ہے وہ نہ صرف عشق وعاشقی کابیان ہے بلکہ زندگی کی اوربہت سی صورتیں اس کے دائرے میں آتی ہیں ۔ بعض اوقات زندگی کے مشکل ترین وقتوں میں کوئی ایک شعر ہی ایسا آجاتا ہے جو جینے کا حوصلہ دے جاتا ہے اور ایک داخلی قوت عطا کرتا ہے ۔ کچھ ایسےشعرہی ہم یہاں ہیش کررہے ہیں ۔
ہم کو مٹا سکے یہ زمانہ میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں
-
موضوعات : ایٹی ٹیوڈاور 3 مزید
ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیں
وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
-
موضوعات : اقبال ڈےاور 1 مزید
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
-
موضوعات : ترغیبیاور 3 مزید
جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں
وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں
-
موضوع : ترغیبی
وقت آنے دے دکھا دیں گے تجھے اے آسماں
ہم ابھی سے کیوں بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے
-
موضوع : مشہور اشعار
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
ساحل کے سکوں سے کسے انکار ہے لیکن
طوفان سے لڑنے میں مزا اور ہی کچھ ہے
لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ سب کو
مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دئیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
-
موضوع : ترغیبی
میرے ٹوٹے حوصلے کے پر نکلتے دیکھ کر
اس نے دیواروں کو اپنی اور اونچا کر دیا
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
واقف کہاں زمانہ ہماری اڑان سے
وہ اور تھے جو ہار گئے آسمان سے
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل
ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا
-
موضوع : ترغیبی
دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن جوش بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
-
موضوع : ترغیبی
میرے سینے میں نہیں تو تیرے سینے میں سہی
ہو کہیں بھی آگ لیکن آگ جلنی چاہئے
-
موضوع : انقلاب
ابھی سے پاؤں کے چھالے نہ دیکھو
ابھی یارو سفر کی ابتدا ہے
لوگ جس حال میں مرنے کی دعا کرتے ہیں
میں نے اس حال میں جینے کی قسم کھائی ہے
-
موضوع : ترغیبی
یہ کہہ کے دل نے مرے حوصلے بڑھائے ہیں
غموں کی دھوپ کے آگے خوشی کے سائے ہیں
ہار ہو جاتی ہے جب مان لیا جاتا ہے
جیت تب ہوتی ہے جب ٹھان لیا جاتا ہے
تیر کھانے کی ہوس ہے تو جگر پیدا کر
سرفروشی کی تمنا ہے تو سر پیدا کر
جہاں پہنچ کے قدم ڈگمگائے ہیں سب کے
اسی مقام سے اب اپنا راستا ہوگا
بڑھ کے طوفان کو آغوش میں لے لے اپنی
ڈوبنے والے ترے ہاتھ سے ساحل تو گیا
میں آندھیوں کے پاس تلاش صبا میں ہوں
تم مجھ سے پوچھتے ہو مرا حوصلہ ہے کیا
شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثل برق
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے
بھنور سے لڑو تند لہروں سے الجھو
کہاں تک چلو گے کنارے کنارے
-
موضوعات : ترغیبیاور 1 مزید
یقین ہو تو کوئی راستہ نکلتا ہے
ہوا کی اوٹ بھی لے کر چراغ جلتا ہے
-
موضوعات : پارلیمنٹاور 1 مزید
وقت کی گردشوں کا غم نہ کرو
حوصلے مشکلوں میں پلتے ہیں
ہوا خفا تھی مگر اتنی سنگ دل بھی نہ تھی
ہمیں کو شمع جلانے کا حوصلہ نہ ہوا
-
موضوع : ہوا
جلانے والے جلاتے ہی ہیں چراغ آخر
یہ کیا کہا کہ ہوا تیز ہے زمانے کی
-
موضوع : ترغیبی
صدا ایک ہی رخ نہیں ناؤ چلتی
چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی
آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
-
موضوع : ترغیبی
اتنے مایوس تو حالات نہیں
لوگ کس واسطے گھبرائے ہیں
-
موضوع : امید
اسے گماں ہے کہ میری اڑان کچھ کم ہے
مجھے یقیں ہے کہ یہ آسمان کچھ کم ہے
انہی غم کی گھٹاؤں سے خوشی کا چاند نکلے گا
اندھیری رات کے پردے میں دن کی روشنی بھی ہے
-
موضوع : ترغیبی
مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
مجھے سر مار کر تیشے سے مر جانا نہیں آتا
-
موضوع : ترغیبی
موجوں کی سیاست سے مایوس نہ ہو فانیؔ
گرداب کی ہر تہہ میں ساحل نظر آتا ہے
گو آبلے ہیں پاؤں میں پھر بھی اے رہروو
منزل کی جستجو ہے تو جاری رہے سفر
دامن جھٹک کے وادئ غم سے گزر گیا
اٹھ اٹھ کے دیکھتی رہی گرد سفر مجھے
تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
لذت غم تو بخش دی اس نے
حوصلے بھی عدمؔ دیے ہوتے
-
موضوع : غم
جن حوصلوں سے میرا جنوں مطمئن نہ تھا
وہ حوصلے زمانے کے معیار ہو گئے
بنا لیتا ہے موج خون دل سے اک چمن اپنا
وہ پابند قفس جو فطرتا آزاد ہوتا ہے