Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تیر پر اشعار

جس تیرسے ہم واقف ہیں

آخراس کی شاعری میں کیا جگہ ، اگرہے بھی تو ان خاص مواقع پرجہاں جنگ وجدل کا بیان ہو لیکن ایسے مواقع آتے ہی کتنےہیں ۔ ہمارے اس انتخاب میں دیکھئے کہ تیرزخمی کردینے کی اپنی صفت کے ساتھ معنی کی کن نئی صورتوں میں تبدیل ہو گیا ہے ۔ تخیل اورتخلیق کی کارکردگی یہی ہوتی ہے ۔ محبوب اوراس کے حسن کے بیانیے میں تیرایک مرکزی استعارے کے طورپرسامنے آتا ہے۔

تیر کھانے کی ہوس ہے تو جگر پیدا کر

سرفروشی کی تمنا ہے تو سر پیدا کر

امیر مینائی

اک پرندہ ابھی اڑان میں ہے

تیر ہر شخص کی کمان میں ہے

امیر قزلباش

اک اور تیر چلا اپنا عہد پورا کر

ابھی پرندے میں تھوڑی سی جان باقی ہے

ناز قادری

تیر پہ تیر نشانوں پہ نشانے بدلے

شکر ہے حسن کے انداز پرانے بدلے

سید عارف علی عارف

زندگی کے حسین ترکش میں

کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں

عبد الحمید عدم

شکریہ ریشمی دلاسے کا

تیر تو آپ نے بھی مارا تھا

مظفر حنفی

حال غم کہہ کے غم بڑھا بیٹھے

تیر مارے تھے تیر کھا بیٹھے

خمار بارہ بنکوی

میٹھی باتیں، کبھی تلخ لہجے کے تیر

دل پہ ہر دن ہے ان کا کرم بھی نیا

قیصر خالد

جنگ کا ہتھیار طے کچھ اور تھا

تیر سینے میں اتارا اور ہے

پروین شاکر

کب ان آنکھوں کا سامنا نہ ہوا

تیر جن کا کبھی خطا نہ ہوا

مبارک عظیم آبادی

کتنے ہی زخم ہیں مرے اک زخم میں چھپے

کتنے ہی تیر آنے لگے اک نشان پر

شکیب جلالی

برساؤ تیر مجھ پہ مگر اتنا جان لو

پہلو میں دل ہے دل میں تمہارا خیال ہے

جلیل مانک پوری

یوں ترس کھا کے نہ پوچھو احوال

تیر سینے پہ لگا ہو جیسے

بشیر بدر

تیر و کمان آپ بھی محسنؔ سنبھالیے

جب دوستی کی آڑ میں خنجر دکھائی دے

محسن زیدی

کس سے پوچھیں کہ وہ انداز نظر

کب تبسم ہوا کب تیر ہوا

باقی صدیقی

کب نکلتا ہے اب جگر سے تیر

یہ بھی کیا تیری آشنائی ہے

داغؔ دہلوی

کربلا میں رخ اصغر کی طرف

تیر چلتے نہیں دیکھے جاتے

عبد اللہ جاوید

غیر پر کیوں نگاہ کرتے ہو

مجھ کو اس تیر کا نشانہ کرو

امداد علی بحر

یہ ناد علی کا عجب معجزہ تھا

سبھی تیر پلٹے کمانوں کی جانب

جینا قریشی

وقت مہلت نہ دے گا پھر تم کو

تیر جس دم کمان سے نکلا

عبدالمتین نیاز

مرحلے اور آنے والے ہیں

تیر اپنا ابھی کمان میں رکھ

عمیر منظر

تیرا انداز نرالا سب سے

تیر تو ایک نشانے کیا کیا

امیتا پرسو رام میتا

چلے گا تیر جب اپنی دعا کا

کلیجے دشمنوں کے چھان دے گا

مرزا مسیتابیگ منتہی

تیرے مژگاں کی کیا کروں تعریف

تیر یہ بے کمان جاتا ہے

مرزا اظفری

محبت تیر ہے اور تیر باطن چھید دیتا ہے

مگر نیت غلط ہو تو نشانے پر نہیں لگتا

احمد کمال پروازی

جینے کی نہیں امید ہم کو

تیر اس کا جگر کے پار نکلا

میر محمدی بیدار

نمی جگہ بنا رہی ہے آنکھ میں

یہ تیر اب کمان سے نکالئے

سرفراز زاہد

ہو گئے رخصت رئیسؔ و عالؔی و واصفؔ نثارؔ

رفتہ رفتہ آگرہ سیمابؔ سونا ہو گیا

سیماب اکبرآبادی

پلک فسانہ شرارت حجاب تیر دعا

تمنا نیند اشارہ خمار سخت تھکی

شہزاد قیس

قتل کے کب تھے یہ سارے ساماں

ایک تیر ایک کماں تھی پہلے

منیر سیفی

ایک تیر نظر ادھر مارو

دل ترستا ہے جاں ترستی ہے

سردار گینڈا سنگھ مشرقی

میں بھی تصورؔ ان میں تھا

جن کے تیر خطا کے تھے

ہربنس سنگھ تصور

یہ تیر یوں ہی نہیں دشمنوں تلک جاتے

بدن کا سارا کھچاؤ کماں پہ پڑتا ہے

افضل گوہر راؤ

بچ گیا تیر نگاہ یار سے

واقعی آئینہ ہے فولاد کا

قربان علی سالک بیگ

زخم کاری بہت لگا دل پر

تیر اپنوں نے اک چلایا تھا

لئیق اکبر سحاب

نشانہ بنے دل رہے تیر دل میں

نشانی نہیں اس نشانی سے اچھی

ریاضؔ خیرآبادی

دل جو امیدوار ہوتا ہے

تیر غم کا شکار ہوتا ہے

بشیر الدین راز

تیر مت دیکھ مرے زخم کو دیکھ

یار یار اپنا عدو میں گم ہے

شاہد کمال

سب نشانے اگر صحیح ہوتے

تیر کوئی خطا نہیں ہوتا

ابن مفتی

تیر پر تیر لگے تو بھی نہ پیکاں نکلے

یا رب اس گھر میں جو آوے نہ وہ مہماں نکلے

میر حسن

ہم بھی ہیں بلقیسؔ مجروحین میں

ہم پہ بھی تیر و تبر چلتے رہے

بلقیس ظفیر الحسن

ریت پر وہ پڑی ہے مشک کوئی

تیر بھی اور کمان سا کچھ ہے

شاہد کمال

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے