بدن پر اشعار
عشقیہ شاعری میں بدن
بنیادی مرکزکے طورپرسامنے آتا ہے شاعروں نے بدن کواس کی پوری جمالیات کے ساتھ مختلف اور متنوع طریقوں سے برتا ہے لیکن بدن کے اس پورے تخلیقی بیانیے میں کہیں بھی بدن کی فحاشی نمایاں نہیں ہوتی ۔ اگرکہیں بدن کے اعضا کی بات ہے بھی تواس کا اظہاراسے بدن میں عام قسم کی دلچسپی سے اوپر اٹھا دیتا ہے ۔ بدن پر شاعری کا ایک دوسرا پہلوروح کے تناظرسے جڑا ہوا ہے ۔ بدن کی کثافت سے نکل کرروحا نی ترفع حاصل کرنا صوفی شعرا کا اہم موضوع رہا ہے۔
اف وہ مرمر سے تراشا ہوا شفاف بدن
دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں
بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں
کہ چھو رہا ہوں تجھے اور پگھل رہا ہوں میں
کسی کلی کسی گل میں کسی چمن میں نہیں
وہ رنگ ہے ہی نہیں جو ترے بدن میں نہیں
-
موضوعات : حسناور 1 مزید
تجھ سا کوئی جہان میں نازک بدن کہاں
یہ پنکھڑی سے ہونٹ یہ گل سا بدن کہاں
-
موضوعات : حسناور 1 مزید
کون بدن سے آگے دیکھے عورت کو
سب کی آنکھیں گروی ہیں اس نگری میں
وہ صاف گو ہے مگر بات کا ہنر سیکھے
بدن حسیں ہے تو کیا بے لباس آئے گا
اک بوند زہر کے لیے پھیلا رہے ہو ہاتھ
دیکھو کبھی خود اپنے بدن کو نچوڑ کے
گوندھ کے گویا پتی گل کی وہ ترکیب بنائی ہے
رنگ بدن کا تب دیکھو جب چولی بھیگے پسینے میں
راستہ دے کہ محبت میں بدن شامل ہے
میں فقط روح نہیں ہوں مجھے ہلکا نہ سمجھ
-
موضوعات : عشقاور 1 مزید
خدا کے واسطے گل کو نہ میرے ہاتھ سے لو
مجھے بو آتی ہے اس میں کسی بدن کی سی
یاد آتے ہیں معجزے اپنے
اور اس کے بدن کا جادو بھی
روح کو روح سے ملنے نہیں دیتا ہے بدن
خیر یہ بیچ کی دیوار گرا چاہتی ہے
میں اس کے بدن کی مقدس کتاب
نہایت عقیدت سے پڑھتا رہا
ہائے وہ اس کا موج خیز بدن
میں تو پیاسا رہا لب جو بھی
نور بدن سے پھیلی اندھیرے میں چاندنی
کپڑے جو اس نے شب کو اتارے پلنگ پر
مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا
خیال ڈھونڈھتا رہتا ہے استعارہ کوئی
شرم بھی اک طرح کی چوری ہے
وہ بدن کو چرائے بیٹھے ہیں
کیا بدن ہے کہ ٹھہرتا ہی نہیں آنکھوں میں
بس یہی دیکھتا رہتا ہوں کہ اب کیا ہوگا
وہ اپنے حسن کی خیرات دینے والے ہیں
تمام جسم کو کاسہ بنا کے چلنا ہے
اب دیکھتا ہوں میں تو وہ اسباب ہی نہیں
لگتا ہے راستے میں کہیں کھل گیا بدن
رکھ دی ہے اس نے کھول کے خود جسم کی کتاب
سادہ ورق پہ لے کوئی منظر اتار دے
جی چاہتا ہے ہاتھ لگا کر بھی دیکھ لیں
اس کا بدن قبا ہے کہ اس کی قبا بدن
ڈھونڈتا ہوں میں زمیں اچھی سی
یہ بدن جس میں اتارا جائے
میں تیری منزل جاں تک پہنچ تو سکتا ہوں
مگر یہ راہ بدن کی طرف سے آتی ہے
کیا سبب تیرے بدن کے گرم ہونے کا سجن
عاشقوں میں کون جلتا تھا گلے کس کے لگا
اندھیری راتوں میں دیکھ لینا
دکھائی دے گی بدن کی خوشبو
ترے بدن کی خلاؤں میں آنکھ کھلتی ہے
ہوا کے جسم سے جب جب لپٹ کے سوتا ہوں
-
موضوعات : جسماور 1 مزید
لگتے ہی ہاتھ کے جو کھینچے ہے روح تن سے
کیا جانیں کیا وہ شے ہے اس کے بدن کے اندر
کیا بدن ہوگا کہ جس کے کھولتے جامے کا بند
برگ گل کی طرح ہر ناخن معطر ہو گیا
چمن وہی کہ جہاں پر لبوں کے پھول کھلیں
بدن وہی کہ جہاں رات ہو گوارا بھی
کیا کیا بدن صاف نظر آتے ہیں ہم کو
کیا کیا شکم و ناف نظر آتے ہیں ہم کو
بدن پہ پیرہن خاک کے سوا کیا ہے
مرے الاؤ میں اب راکھ کے سوا کیا ہے
یہ بے کنار بدن کون پار کر پایا
بہے چلے گئے سب لوگ اس روانی میں
بہت لمبی مسافت ہے بدن کی
مسافر مبتدی تھکنے لگا ہے
سرد راتوں کا تقاضہ تھا بدن جل جاے
پھر وہ اک آگ جو سینہ سے لگائی میں نے
-
موضوعات : آگاور 2 مزید
چھلک رہی ہے اداسی بدن کے برتن سے
یہ بھر گیا ہے مجھے دوسرا دیا جائے
اس وقت جان پیارے ہم پاوتے ہیں جی سا
لگتا ہے جب بدن سے تیرے بدن ہمارا
محبت کے ٹھکانے ڈھونڈھتی ہے
بدن کی لا مکانی موسموں میں
یوں ہے ڈلک بدن کی اس پیرہن کی تہہ میں
سرخی بدن کی جیسے چھلکے بدن کی تہہ میں
یہ تیر یوں ہی نہیں دشمنوں تلک جاتے
بدن کا سارا کھچاؤ کماں پہ پڑتا ہے
خاک سے تبدیل ہو کر آب ہو جاتے ہیں ہم
اس بدن دریا میں جب غرقاب ہو جاتے ہیں ہم
ہر ایک ساز کو سازندگاں نہیں درکار
بدن کو ضربت مضراب سے علاقہ نہیں