سردی پر اشعار
سردی کا موسم بہت رومان
پرور ہوتا ہے ۔ اس میں سورج کی شدت اور آگ کی گرمی بھی مزا دینے لگتی ہے ۔ایک ایسا موسم جس میں یہ دونوں شدتیں اپنا اثر زائل کردیں اور لطف دینے لگیں عاشق کیلئے ایک اور طرح کی بے چینی پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے ہجر کی شدتیں کم ہونے کے بجائے اور بڑھ جاتی ہیں ۔ سردی کے موسم کو اور بھی کئی زاویوں سے شاعری میں برتا گیا ہے ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے ۔
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
-
موضوعات : اداسیاور 3 مزید
یہ سرد رات یہ آوارگی یہ نیند کا بوجھ
ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے
تشریح
یہ شعر اردو کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ اس میں جو کیفیت پائی جاتی ہے اسے شدید تنہائی کے عالم پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ اس کے تلازمات میں شدت بھی ہے اور احساس بھی۔ ’’سرد رات‘‘، ’’آوارگی‘‘اور ’’نیند کا بوجھ‘‘ یہ ایسے تین عالم ہیں جن سے تنہائی کی تصویر بنتی ہے اور جب یہ کہا کہ ’’ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے‘‘ تو گویا تنہائی کے ساتھ ساتھ بےخانمائی کے المیہ کی تصویر بھی کھینچی ہے۔ شعر کا بنیادی مضمون تنہائی اور بےخانمائی اور اجنبیت ہے۔ شاعر کسی اور شہر میں ہیں اور سرد رات میں آنکھوں پر نیند کا بوجھ لے کے آوارہ گھوم رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ شہر میں اجنبی ہیں اس لئے کسی کے گھر نہیں جا سکتے ورنہ سرد رات، آوارگی اور نیند کا بوجھ وہ مجبوریاں ہیں جو کسی ٹھکانے کا تقاضا کرتی ہیں۔ مگر شاعر کا المیہ یہ ہے کہ وہ تنہائی کے شہر میں کسی کو جانتے نہیں اسی لئے کہتے ہیں اگر میں اپنے شہر میں ہوتا تو اپنے گھر گیا ہوتا۔
شفق سوپوری
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
-
موضوعات : شاماور 1 مزید
دسمبر کی سردی ہے اس کے ہی جیسی
ذرا سا جو چھو لے بدن کانپتا ہے
گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے
سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا
-
موضوع : گرمی
وہ گلے سے لپٹ کے سوتے ہیں
آج کل گرمیاں ہیں جاڑوں میں
-
موضوع : وصال
جب چلی ٹھنڈی ہوا بچہ ٹھٹھر کر رہ گیا
ماں نے اپنے لعل کی تختی جلا دی رات کو
-
موضوعات : ماںاور 1 مزید
تم تو سردی کی حسیں دھوپ کا چہرہ ہو جسے
دیکھتے رہتے ہیں دیوار سے جاتے ہوئے ہم
رات بے چین سی سردی میں ٹھٹھرتی ہے بہت
دن بھی ہر روز سلگتا ہے تری یادوں سے
سردی اور گرمی کے عذر نہیں چلتے
موسم دیکھ کے صاحب عشق نہیں ہوتا
وہ سردیوں کی دھوپ کی طرح غروب ہو گیا
لپٹ رہی ہے یاد جسم سے لحاف کی طرح
-
موضوعات : دھوپاور 1 مزید
اب کی سردی میں کہاں ہے وہ الاؤ سینہ
اب کی سردی میں مجھے خود کو جلانا ہوگا
سورج لحاف اوڑھ کے سویا تمام رات
سردی سے اک پرندہ دریچے میں مر گیا
سخت سردی میں ٹھٹھرتی ہے بہت روح مری
جسم یار آ کہ بچاری کو سہارا مل جائے
تھوڑی سردی ذرا سا نزلہ ہے
شاعری کا مزاج پتلا ہے
تیز دھوپ میں آئی ایسی لہر سردی کی
موم کا ہر اک پتلا بچ گیا پگھلنے سے
اک برف سی جمی رہے دیوار و بام پر
اک آگ میرے کمرے کے اندر لگی رہے
کتراتے ہیں بل کھاتے ہیں گھبراتے ہیں کیوں لوگ
سردی ہے تو پانی میں اتر کیوں نہیں جاتے
اتنی سردی ہے کہ میں بانہوں کی حرارت مانگوں
رت یہ موزوں ہے کہاں گھر سے نکلنے کے لیے
سرد جھونکوں سے بھڑکتے ہیں بدن میں شعلے
جان لے لے گی یہ برسات قریب آ جاؤ
-
موضوع : وصال
سردی ہے کہ اس جسم سے پھر بھی نہیں جاتی
سورج ہے کہ مدت سے مرے سر پر کھڑا ہے
وہ آگ بجھی تو ہمیں موسم نے جھنجھوڑا
ورنہ یہی لگتا تھا کہ سردی نہیں آئی
ایسی سردی میں شرط چادر ہے
اوڑھنے کی ہو یا بچھونے کی
بیٹھے بیٹھے پھینک دیا ہے آتش دان میں کیا کیا کچھ
موسم اتنا سرد نہیں تھا جتنی آگ جلا لی ہے
-
موضوع : موسم
سرد راتوں کا تقاضہ تھا بدن جل جاے
پھر وہ اک آگ جو سینہ سے لگائی میں نے
پیروں سے ٹکراتے ہیں جب جھونکے سرد ہواؤں کے
ہاتھ لرزنے لگ جاتے ہیں چمڑے کے دستانوں میں