Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Bashir Badr's Photo'

بشیر بدر

1935 | بھوپال, انڈیا

معروف جدید شاعر، سادہ و سلیس زبان میں شعر کہنے کے لئے مشہور ہیں

معروف جدید شاعر، سادہ و سلیس زبان میں شعر کہنے کے لئے مشہور ہیں

بشیر بدر کے اشعار

371.6K
Favorite

باعتبار

رونے والوں نے اٹھا رکھا تھا گھر سر پر مگر

عمر بھر کا جاگنے والا پڑا سوتا رہا

تری آرزو تری جستجو میں بھٹک رہا تھا گلی گلی

مری داستاں تری زلف ہے جو بکھر بکھر کے سنور گئی

یہ ایک پیڑ ہے آ اس سے مل کے رو لیں ہم

یہاں سے تیرے مرے راستے بدلتے ہیں

سب لوگ اپنے اپنے خداؤں کو لائے تھے

اک ہم ہی ایسے تھے کہ ہمارا خدا نہ تھا

کئی سال سے کچھ خبر ہی نہیں

کہاں دن گزارا کہاں رات کی

میں تمام دن کا تھکا ہوا تو تمام شب کا جگا ہوا

ذرا ٹھہر جا اسی موڑ پر تیرے ساتھ شام گزار لوں

گفتگو ان سے روز ہوتی ہے

مدتوں سامنا نہیں ہوتا

حسیں تو اور ہیں لیکن کوئی کہاں تجھ سا

جو دل جلائے بہت پھر بھی دل ربا ہی لگے

پیار ہی پیار ہے سب لوگ برابر ہیں یہاں

مے کدہ میں کوئی چھوٹا نہ بڑا جام اٹھا

پھر سے خدا بنائے گا کوئی نیا جہاں

دنیا کو یوں مٹائے گی اکیسویں صدی

عجب چراغ ہوں دن رات جلتا رہتا ہوں

میں تھک گیا ہوں ہوا سے کہو بجھائے مجھے

جی بہت چاہتا ہے سچ بولیں

کیا کریں حوصلہ نہیں ہوتا

خدا کی اس کے گلے میں عجیب قدرت ہے

وہ بولتا ہے تو اک روشنی سی ہوتی ہے

وہ شخص جس کو دل و جاں سے بڑھ کے چاہا تھا

بچھڑ گیا تو بظاہر کوئی ملال نہیں

چاند سا مصرعہ اکیلا ہے مرے کاغذ پر

چھت پہ آ جاؤ مرا شعر مکمل کر دو

میں چاہتا ہوں کہ تم ہی مجھے اجازت دو

تمہاری طرح سے کوئی گلے لگائے مجھے

لہجہ کہ جیسے صبح کی خوشبو اذان دے

جی چاہتا ہے میں تری آواز چوم لوں

دعا کرو کہ یہ پودا سدا ہرا ہی لگے

اداسیوں میں بھی چہرہ کھلا کھلا ہی لگے

تمہارے ساتھ یہ موسم فرشتوں جیسا ہے

تمہارے بعد یہ موسم بہت ستائے گا

نہ تم ہوش میں ہو نہ ہم ہوش میں ہیں

چلو مے کدہ میں وہیں بات ہوگی

وہ عطر دان سا لہجہ مرے بزرگوں کا

رچی بسی ہوئی اردو زبان کی خوشبو

سر جھکاؤ گے تو پتھر دیوتا ہو جائے گا

اتنا مت چاہو اسے وہ بے وفا ہو جائے گا

وہ ماتھا کا مطلع ہو کہ ہونٹھوں کے دو مصرع

بچپن سے غزل ہی میری محبوبہ رہی ہے

محبت ایک خوشبو ہے ہمیشہ ساتھ چلتی ہے

کوئی انسان تنہائی میں بھی تنہا نہیں رہتا

ہاتھ میں چاند جہاں آیا مقدر چمکا

سب بدل جائے گا قسمت کا لکھا جام اٹھا

میں جب سو جاؤں ان آنکھوں پہ اپنے ہونٹ رکھ دینا

یقیں آ جائے گا پلکوں تلے بھی دل دھڑکتا ہے

تہذیب کے لباس اتر جائیں گے جناب

ڈالر میں یوں نچائے گی اکیسویں صدی

وہ چہرہ کتابی رہا سامنے

بڑی خوب صورت پڑھائی ہوئی

تمہارے گھر کے سبھی راستوں کو کاٹ گئی

ہمارے ہاتھ میں کوئی لکیر ایسی تھی

پتھر مجھے کہتا ہے مرا چاہنے والا

میں موم ہوں اس نے مجھے چھو کر نہیں دیکھا

بھلا ہم ملے بھی تو کیا ملے وہی دوریاں وہی فاصلے

نہ کبھی ہمارے قدم بڑھے نہ کبھی تمہاری جھجک گئی

پھولوں میں غزل رکھنا یہ رات کی رانی ہے

اس میں تری زلفوں کی بے ربط کہانی ہے

کسی نے چوم کے آنکھوں کو یہ دعا دی تھی

زمین تیری خدا موتیوں سے نم کر دے

تم محبت کو کھیل کہتے ہو

ہم نے برباد زندگی کر لی

کمرے ویراں آنگن خالی پھر یہ کیسی آوازیں

شاید میرے دل کی دھڑکن چنی ہے ان دیواروں میں

وہ بڑا رحیم و کریم ہے مجھے یہ صفت بھی عطا کرے

تجھے بھولنے کی دعا کروں تو مری دعا میں اثر نہ ہو

اسی شہر میں کئی سال سے مرے کچھ قریبی عزیز ہیں

انہیں میری کوئی خبر نہیں مجھے ان کا کوئی پتہ نہیں

میں چپ رہا تو اور غلط فہمیاں بڑھیں

وہ بھی سنا ہے اس نے جو میں نے کہا نہیں

خدا کی اتنی بڑی کائنات میں میں نے

بس ایک شخص کو مانگا مجھے وہی نہ ملا

اس شہر کے بادل تری زلفوں کی طرح ہیں

یہ آگ لگاتے ہیں بجھانے نہیں آتے

محبتوں میں دکھاوے کی دوستی نہ ملا

اگر گلے نہیں ملتا تو ہاتھ بھی نہ ملا

ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں

عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں

کاغذ میں دب کے مر گئے کیڑے کتاب کے

دیوانہ بے پڑھے لکھے مشہور ہو گیا

نہ اداس ہو نہ ملال کر کسی بات کا نہ خیال کر

کئی سال بعد ملے ہیں ہم تیرے نام آج کی شام ہے

میری آنکھ کے تارے اب نہ دیکھ پاؤ گے

رات کے مسافر تھے کھو گئے اجالوں میں

مرے ساتھ چلنے والے تجھے کیا ملا سفر میں

وہی دکھ بھری زمیں ہے وہی غم کا آسماں ہے

کئی ستاروں کو میں جانتا ہوں بچپن سے

کہیں بھی جاؤں مرے ساتھ ساتھ چلتے ہیں

اک شام کے سائے تلے بیٹھے رہے وہ دیر تک

آنکھوں سے کی باتیں بہت منہ سے کہا کچھ بھی نہیں

کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی

یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا

لوبان میں چنگاری جیسے کوئی رکھ جائے

یوں یاد تری شب بھر سینے میں سلگتی ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے