Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سوشل ڈسٹینسنگ شاعری پر اشعار

کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے

یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو

بشیر بدر

اب نہیں کوئی بات خطرے کی

اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے

جون ایلیا

قربتیں لاکھ خوبصورت ہوں

دوریوں میں بھی دل کشی ہے ابھی

احمد فراز

تھکنا بھی لازمی تھا کچھ کام کرتے کرتے

کچھ اور تھک گیا ہوں آرام کرتے کرتے

ظفر اقبال

شام ہوتے ہی کھلی سڑکوں کی یاد آتی ہے

سوچتا روز ہوں میں گھر سے نہیں نکلوں گا

شہریار

راستے ہیں کھلے ہوئے سارے

پھر بھی یہ زندگی رکی ہوئی ہے

ظفر اقبال

ایک ہی شہر میں رہنا ہے مگر ملنا نہیں

دیکھتے ہیں یہ اذیت بھی گوارہ کر کے

اعتبار ساجد

گھر میں خود کو قید تو میں نے آج کیا ہے

تب بھی تنہا تھا جب محفل محفل تھا میں

شارق کیفی

یہ جو ملاتے پھرتے ہو تم ہر کسی سے ہاتھ

ایسا نہ ہو کہ دھونا پڑے زندگی سے ہاتھ

جاوید صبا

کچھ روز نصیر آؤ چلو گھر میں رہا جائے

لوگوں کو یہ شکوہ ہے کہ گھر پر نہیں ملتا

نصیر ترابی

میں وہ محروم عنایت ہوں کہ جس نے تجھ سے

ملنا چاہا تو بچھڑنے کی وبا پھوٹ پڑی

نعیم ضرار احمد

یہ کہہ کے اس نے مجھے مخمصے میں ڈال دیا

ملاؤ ہاتھ اگر واقعی محبت ہے

جاوید صبا

اب تو مشکل ہے کسی اور کا ہونا مرے دوست

تو مجھے ایسے ہوا جیسے کرونا مرے دوست

ادریس بابر

دل تو پہلے ہی جدا تھے یہاں بستی والو

کیا قیامت ہے کہ اب ہاتھ ملانے سے گئے

ایمان قیصرانی

ٹینشن سے مرے گا نہ کرونے سے مرے گا

اک شخص ترے پاس نہ ہونے سے مرے گا

ادریس بابر

حال پوچھا نہ کرے ہاتھ ملایا نہ کرے

میں اسی دھوپ میں خوش ہوں کوئی سایہ نہ کرے

کاشف حسین غائر

بھوک سے یا وبا سے مرنا ہے

فیصلہ آدمی کو کرنا ہے

عشرت آفریں

گھوم پھر کر نہ قتل عام کرے

جو جہاں ہے وہیں قیام کرے

شبیر نازش

افسوس یہ وبا کے دنوں کی محبتیں

اک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے بھی گئے

سجاد بلوچ

گھر رہیے کہ باہر ہے اک رقص بلاؤں کا

اس موسم وحشت میں نادان نکلتے ہیں

فراست رضوی

ممکن ہے یہی دل کے ملانے کا سبب ہو

ی رت جو ہمیں ہاتھ ملانے نہیں دیتی

ارشد جمال صارم

بازار ہیں خاموش تو گلیوں پہ ہے سکتہ

اب شہر میں تنہائی کا ڈر بول رہا ہے

اسحاق وردگ

ان دوریوں نے اور بڑھا دی ہیں قربتیں

سب فاصلے وبا کی طوالت سے مٹ گئے

اعتبار ساجد

ایسی ترقی پر تو رونا بنتا ہے

جس میں دہشت گرد کرونا بنتا ہے

اسحاق وردگ

کوئی دوا بھی نہیں ہے یہی تو رونا ہے

صد احتیاط کہ پھیلا ہوا کرونا ہے

وجیہ ثانی

شہر گم صم راستے سنسان گھر خاموش ہیں

کیا بلا اتری ہے کیوں دیوار و در خاموش ہیں

اظہرنقوی

آپ ہی آپ دیے بجھتے چلے جاتے ہیں

اور آسیب دکھائی بھی نہیں دیتا ہے

رضی اختر شوق

موت آ جائے وبا میں یہ الگ بات مگر

ہم ترے ہجر میں ناغہ تو نہیں کر سکتے

صابر آفاق

مجھے یہ سارے مسیحا عزیز ہیں لیکن

یہ کہہ رہے ہیں کہ میں تم سے فاصلہ رکھوں

سعود عثمانی

جہاں جو تھا وہیں رہنا تھا اس کو

مگر یہ لوگ ہجرت کر رہے ہیں

لیاقت جعفری

اپنی مجبوری کو ہم دیوار و در کہنے لگے

قید کا ساماں کیا اور اس کو گھر کہنے لگے

شبنم رومانی

جان ہے تو جہان ہے دل ہے تو آرزو بھی ہے

عشق بھی ہو رہے گا پھر جان ابھی بچایئے

سعود عثمانی

کیسا چمن کہ ہم سے اسیروں کو منع ہے

چاک قفس سے باغ کی دیوار دیکھنا

میر تقی میر

وصل کو موقوف کرنا پڑ گیا ہے چند روز

اب مجھے ملنے نہ آنا اب کوئی شکوہ نہیں

نامعلوم

اکیلا ہو رہ دنیا میں گر چاہے بہت جینا

ہوئی ہے فیض تنہائی سے عمر خضر طولانی

محمد رفیع سودا

ہر ایک جسم میں موجود ہشت پا کی طرح

وبا کا خوف ہے خود بھی کسی وبا کی طرح

سعود عثمانی

اک بلا کوکتی ہے گلیوں میں

سب سمٹ کر گھروں میں بیٹھ رہیں

محمد جاوید انور

شہر جاں میں وباؤں کا اک دور تھا

میں ادائے تنفس میں کمزور تھا

پلو مشرا

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے