کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
-
موضوعات : فاصلہاور 1 مزید
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
تھکنا بھی لازمی تھا کچھ کام کرتے کرتے
کچھ اور تھک گیا ہوں آرام کرتے کرتے
ایک ہی شہر میں رہنا ہے مگر ملنا نہیں
دیکھتے ہیں یہ اذیت بھی گوارہ کر کے
گھر میں خود کو قید تو میں نے آج کیا ہے
تب بھی تنہا تھا جب محفل محفل تھا میں
یہ جو ملاتے پھرتے ہو تم ہر کسی سے ہاتھ
ایسا نہ ہو کہ دھونا پڑے زندگی سے ہاتھ
کچھ روز نصیر آؤ چلو گھر میں رہا جائے
لوگوں کو یہ شکوہ ہے کہ گھر پر نہیں ملتا
میں وہ محروم عنایت ہوں کہ جس نے تجھ سے
ملنا چاہا تو بچھڑنے کی وبا پھوٹ پڑی
اب تو مشکل ہے کسی اور کا ہونا مرے دوست
تو مجھے ایسے ہوا جیسے کرونا مرے دوست
دل تو پہلے ہی جدا تھے یہاں بستی والو
کیا قیامت ہے کہ اب ہاتھ ملانے سے گئے
ٹینشن سے مرے گا نہ کرونے سے مرے گا
اک شخص ترے پاس نہ ہونے سے مرے گا
حال پوچھا نہ کرے ہاتھ ملایا نہ کرے
میں اسی دھوپ میں خوش ہوں کوئی سایہ نہ کرے
بھوک سے یا وبا سے مرنا ہے
فیصلہ آدمی کو کرنا ہے
گھر رہیے کہ باہر ہے اک رقص بلاؤں کا
اس موسم وحشت میں نادان نکلتے ہیں
ممکن ہے یہی دل کے ملانے کا سبب ہو
ی رت جو ہمیں ہاتھ ملانے نہیں دیتی
بازار ہیں خاموش تو گلیوں پہ ہے سکتہ
اب شہر میں تنہائی کا ڈر بول رہا ہے
ان دوریوں نے اور بڑھا دی ہیں قربتیں
سب فاصلے وبا کی طوالت سے مٹ گئے
ایسی ترقی پر تو رونا بنتا ہے
جس میں دہشت گرد کرونا بنتا ہے
شہر گم صم راستے سنسان گھر خاموش ہیں
کیا بلا اتری ہے کیوں دیوار و در خاموش ہیں
آپ ہی آپ دیے بجھتے چلے جاتے ہیں
اور آسیب دکھائی بھی نہیں دیتا ہے
موت آ جائے وبا میں یہ الگ بات مگر
ہم ترے ہجر میں ناغہ تو نہیں کر سکتے
مجھے یہ سارے مسیحا عزیز ہیں لیکن
یہ کہہ رہے ہیں کہ میں تم سے فاصلہ رکھوں
جہاں جو تھا وہیں رہنا تھا اس کو
مگر یہ لوگ ہجرت کر رہے ہیں
اپنی مجبوری کو ہم دیوار و در کہنے لگے
قید کا ساماں کیا اور اس کو گھر کہنے لگے
جان ہے تو جہان ہے دل ہے تو آرزو بھی ہے
عشق بھی ہو رہے گا پھر جان ابھی بچایئے
کیسا چمن کہ ہم سے اسیروں کو منع ہے
چاک قفس سے باغ کی دیوار دیکھنا
اکیلا ہو رہ دنیا میں گر چاہے بہت جینا
ہوئی ہے فیض تنہائی سے عمر خضر طولانی
ہر ایک جسم میں موجود ہشت پا کی طرح
وبا کا خوف ہے خود بھی کسی وبا کی طرح
اک بلا کوکتی ہے گلیوں میں
سب سمٹ کر گھروں میں بیٹھ رہیں