Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زندگی پر اشعار

ایک تخلیق کار زندگی

کو جتنے زاویوں اور جتنی صورتوں میں دیکھتا ہے وہ ایک عام شخص کے دائرے سے باہر ہوتا ہے ۔ زندگی کے حسن اور اس کی بد صورتی کا جو ایک گہرا تجزیہ شعر وادب میں ملتا ہے اس کا اندازہ ہمارے اس چھوٹے سے انتخاب سےلگایا جاسکتا ہے ۔ زندگی اتنی سادہ نہیں جتنی بظاہر نظر آتی ہے اس میں بہت پیچ ہیں اور اس کے رنگ بہت متنوع ہیں ۔ وہ بہت ہمدرد بھی ہے اور اپنی بعض صورتوں میں بہت سفاک بھی ۔ زندگی کی اس کہانی کو آپ ریختہ پر پڑھئے ۔

وہیں پہ جھاڑ کے اٹھتے ہیں پھر متاع حیات

کہ زندگی کو جہاں جس کے نام کرتے ہیں

عابدہ کرامت

ہماری زندگی تو مختصر سی اک کہانی تھی

بھلا ہو موت کا جس نے بنا رکھا ہے افسانہ

بیدم شاہ وارثی

زندگی شاید اسی کا نام ہے

دوریاں مجبوریاں تنہائیاں

کیف بھوپالی

زندگی فردوس گم گشتہ کو پا سکتی نہیں

موت ہی آتی ہے یہ منزل دکھانے کے لیے

حفیظ جالندھری

کوئی وقت بتلا کہ تجھ سے ملوں

مری دوڑتی بھاگتی زندگی

خلیل الرحمن اعظمی

زندگی ہے اپنے قبضے میں نہ اپنے بس میں موت

آدمی مجبور ہے اور کس قدر مجبور ہے

احمد امیٹھوی

کتنی بھی پیاری ہو ہر اک شے سے جی اکتا جاتا ہے

وقت کے ساتھ تو چمکیلے زیور بھی کالے پڑ جاتے ہیں

مکیش عالم

زندگی زندہ دلی کا ہے نام

مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں

امام بخش ناسخ

زندگی تجھ سے بھی کیا خوب تعلق ہے مرا

جیسے سوکھے ہوئے پتے سے ہوا کا رشتہ

خلش اکبرآبادی

بڑا گھاٹے کا سودا ہے صداؔ یہ سانس لینا بھی

بڑھے ہے عمر جیوں جیوں زندگی کم ہوتی جاتی ہے

صدا انبالوی

زندگی مائل فریاد و فغاں آج بھی ہے

کل بھی تھا سینے پہ اک سنگ گراں آج بھی ہے

کلیم عاجز

زندگی وادی و صحرا کا سفر ہے کیوں ہے

اتنی ویران مری راہگزر ہے کیوں ہے

ابراہیم اشکؔ

منیرؔ اس خوب صورت زندگی کو

ہمیشہ ایک سا ہونا نہیں ہے

منیر نیازی

موت کہتے ہیں جس کو اے ساغرؔ

زندگی کی کوئی کڑی ہوگی

ساغر صدیقی

زندگی اب تجھے سنواریں کیا

کوششیں ساری بے اثر شاید

امیتا پرسو رام میتا

ہم کیسے زندہ ہیں اب تک

ہم کو بھی حیرت ہوتی ہے

عقیل نعمانی

کہانی ہے تو اتنی ہے فریب خواب ہستی کی

کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہو جائے

سیماب اکبرآبادی

کچھ دن سے زندگی مجھے پہچانتی نہیں

یوں دیکھتی ہے جیسے مجھے جانتی نہیں

انجم رہبر

موت کا بھی علاج ہو شاید

زندگی کا کوئی علاج نہیں

فراق گورکھپوری

کس طرح جمع کیجئے اب اپنے آپ کو

کاغذ بکھر رہے ہیں پرانی کتاب کے

عادل منصوری

مرا تجربہ ہے کہ اس زندگی میں

پریشانیاں ہی پریشانیاں ہیں

حفیظ جالندھری

درد بڑھ کر دوا نہ ہو جائے

زندگی بے مزا نہ ہو جائے

علیم اختر مظفر نگری

مصیبت اور لمبی زندگانی

بزرگوں کی دعا نے مار ڈالا

مضطر خیرآبادی

زندگی کی ضرورتوں کا یہاں

حسرتوں میں شمار ہوتا ہے

انور شعور

زندگی نام اسی موج مے ناب کا ہے

مے کدے سے جو اٹھے دار و رسن تک پہنچے

کمال احمد صدیقی

زندگی اور زندگی کی یادگار

پردہ اور پردے پہ کچھ پرچھائیاں

اثر لکھنوی

بندھن سا اک بندھا تھا رگ و پے سے جسم میں

مرنے کے بعد ہاتھ سے موتی بکھر گئے

بشیر الدین احمد دہلوی

کبھی سایہ ہے کبھی دھوپ مقدر میرا

ہوتا رہتا ہے یوں ہی قرض برابر میرا

اطہر نفیس

یہ مانا زندگی ہے چار دن کی

بہت ہوتے ہیں یارو چار دن بھی

فراق گورکھپوری

تیز ہوا نے مجھ سے پوچھا

ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو

محسن نقوی

کتنا سوچا تھا دل لگائیں گے

سوچتے سوچتے حیات ہوئی

صدا انبالوی

مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے

مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ

جگر مراد آبادی

درد الفت کا نہ ہو تو زندگی کا کیا مزا

آہ و زاری زندگی ہے بے قراری زندگی

غلام بھیک نیرنگ

ہم غم زدہ ہیں لائیں کہاں سے خوشی کے گیت

دیں گے وہی جو پائیں گے اس زندگی سے ہم

ساحر لدھیانوی

زندگی کس طرح بسر ہوگی

دل نہیں لگ رہا محبت میں

جون ایلیا

یہ زندگی بھی عجب کاروبار ہے کہ مجھے

خوشی ہے پانے کی کوئی نہ رنج کھونے کا

جاوید اختر

کم سے کم موت سے ایسی مجھے امید نہیں

زندگی تو نے تو دھوکے پہ دیا ہے دھوکہ

فراق گورکھپوری

تم محبت کو کھیل کہتے ہو

ہم نے برباد زندگی کر لی

بشیر بدر

کچھ اس طرح سے گزاری ہے زندگی جیسے

تمام عمر کسی دوسرے کے گھر میں رہا

احمد فراز

ایک مشت خاک اور وہ بھی ہوا کی زد میں ہے

زندگی کی بے بسی کا استعارہ دیکھنا

پروین شاکر

دھوکہ ہے اک فریب ہے منزل کا ہر خیال

سچ پوچھئے تو سارا سفر واپسی کا ہے

راجیش ریڈی

زندگی خواب دیکھتی ہے مگر

زندگی زندگی ہے خواب نہیں

شبنم رومانی

تندیٔ سیل وقت میں یہ بھی ہے کوئی زندگی

صبح ہوئی تو جی اٹھے، رات ہوئی تو مر گئے

حزیں لدھیانوی

اس زاویے سے دیکھیے آئینۂ حیات

جس زاویے سے میں نے لگایا ہے دھوپ میں

طاہر فراز

بہت قریب رہی ہے یہ زندگی ہم سے

بہت عزیز سہی اعتبار کچھ بھی نہیں

اختر سعید خان

خدایا اپنے کن کی لاج رکھ لے

ترا شہکار ضائع ہو رہا ہے

احمد صغیر

مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مر جائے

کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے

خواجہ میر درد

زندگی اور ہیں کتنے ترے چہرے یہ بتا

تجھ سے اک عمر کی حالانکہ شناسائی ہے

امیر قزلباش

جو انہیں وفا کی سوجھی تو نہ زیست نے وفا کی

ابھی آ کے وہ نہ بیٹھے کہ ہم اٹھ گئے جہاں سے

عبد المجید سالک

زندگی پرچھائیاں اپنی لیے

آئنوں کے درمیاں سے آئی ہے

نشور واحدی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے