Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زندگی پر اشعار

ایک تخلیق کار زندگی

کو جتنے زاویوں اور جتنی صورتوں میں دیکھتا ہے وہ ایک عام شخص کے دائرے سے باہر ہوتا ہے ۔ زندگی کے حسن اور اس کی بد صورتی کا جو ایک گہرا تجزیہ شعر وادب میں ملتا ہے اس کا اندازہ ہمارے اس چھوٹے سے انتخاب سےلگایا جاسکتا ہے ۔ زندگی اتنی سادہ نہیں جتنی بظاہر نظر آتی ہے اس میں بہت پیچ ہیں اور اس کے رنگ بہت متنوع ہیں ۔ وہ بہت ہمدرد بھی ہے اور اپنی بعض صورتوں میں بہت سفاک بھی ۔ زندگی کی اس کہانی کو آپ ریختہ پر پڑھئے ۔

جو گزاری نہ جا سکی ہم سے

ہم نے وہ زندگی گزاری ہے

جون ایلیا

ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے

عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے

ندا فاضلی

زندگی کس طرح بسر ہوگی

دل نہیں لگ رہا محبت میں

جون ایلیا

زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمیں

پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں سر لگتا ہے

بشیر بدر

زندگی زندہ دلی کا ہے نام

مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں

امام بخش ناسخ

سیر کر دنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں

زندگی گر کچھ رہی تو یہ جوانی پھر کہاں

خواجہ میر درد

موت کا بھی علاج ہو شاید

زندگی کا کوئی علاج نہیں

فراق گورکھپوری

عمر دراز مانگ کے لائی تھی چار دن

دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

سیماب اکبرآبادی

دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے

چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے

ساحر لدھیانوی

تم محبت کو کھیل کہتے ہو

ہم نے برباد زندگی کر لی

بشیر بدر

دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو

زندگی کیا ہے کتابوں کو ہٹا کر دیکھو

ندا فاضلی

لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے

کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم

ساحر لدھیانوی

زندگی شاید اسی کا نام ہے

دوریاں مجبوریاں تنہائیاں

کیف بھوپالی

غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست

وہ تیری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں

فراق گورکھپوری

اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے

بے حس بنا چکی ہے بہت زندگی مجھے

شکیل بدایونی

زندگی ایک فن ہے لمحوں کو

اپنے انداز سے گنوانے کا

جون ایلیا

زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں

ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں

فیض احمد فیض

اب مری کوئی زندگی ہی نہیں

اب بھی تم میری زندگی ہو کیا

جون ایلیا

کچھ اس طرح سے گزاری ہے زندگی جیسے

تمام عمر کسی دوسرے کے گھر میں رہا

احمد فراز

یوں تو مرنے کے لیے زہر سبھی پیتے ہیں

زندگی تیرے لیے زہر پیا ہے میں نے

خلیل الرحمن اعظمی

میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا

ہر فکر کو دھوئیں میں اڑاتا چلا گیا

ساحر لدھیانوی

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب

موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا

تشریح

چکبست کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔ غالب نے کیا خوب کہا تھا:

ہو گئے مضمحل قویٰ غالبؔ

اب عناصر میں اعتدال کہاں

انسانی جسم کچھ عناصر کی ترتیب سے تشکیل پاتا ہے۔ حکماء کی نظر میں وہ عناصر آگ، ہوا، مٹی اور پانی ہے۔ ان عناصر میں جب انتشار پیدا ہوتا ہے تو انسانی جسم اپنا توازن کھو بیٹھتا ہے۔یعنی غالب کی زبان میں جب عناصر میں اعتدال نہیں رہتا تو قویٰ یعنی مختلف قوتیں کمزور ہوجاتی ہیں۔ چکبست اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جب تک انسانی جسم میں عناصر ترتیب کے ساتھ رہتے ہیں آدمی زندہ رہتا ہے۔ اور جب یہ عناصر پریشان ہوجاتے ہیں یعنی ان میں توزن اور اعتدال نہیں رہتا تو موت واقع ہو جاتی ہے۔

شفق سوپوری

چکبست برج نرائن

اس طرح زندگی نے دیا ہے ہمارا ساتھ

جیسے کوئی نباہ رہا ہو رقیب سے

ساحر لدھیانوی

کس طرح جمع کیجئے اب اپنے آپ کو

کاغذ بکھر رہے ہیں پرانی کتاب کے

عادل منصوری

درد ایسا ہے کہ جی چاہے ہے زندہ رہئے

زندگی ایسی کہ مر جانے کو جی چاہے ہے

کلیم عاجز

کوئی خاموش زخم لگتی ہے

زندگی ایک نظم لگتی ہے

گلزار

گنوائی کس کی تمنا میں زندگی میں نے

وہ کون ہے جسے دیکھا نہیں کبھی میں نے

جون ایلیا

کم سے کم موت سے ایسی مجھے امید نہیں

زندگی تو نے تو دھوکے پہ دیا ہے دھوکہ

فراق گورکھپوری

یہی ہے زندگی کچھ خواب چند امیدیں

انہیں کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو

ندا فاضلی

ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانیؔ

زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا

فانی بدایونی

تو کہانی ہی کے پردے میں بھلی لگتی ہے

زندگی تیری حقیقت نہیں دیکھی جاتی

اختر سعید خان

مجھے زندگی کی دعا دینے والے

ہنسی آ رہی ہے تری سادگی پر

گوپال متل

زندگی کیا ہے اک کہانی ہے

یہ کہانی نہیں سنانی ہے

جون ایلیا

یہ مانا زندگی ہے چار دن کی

بہت ہوتے ہیں یارو چار دن بھی

فراق گورکھپوری

ہم غم زدہ ہیں لائیں کہاں سے خوشی کے گیت

دیں گے وہی جو پائیں گے اس زندگی سے ہم

ساحر لدھیانوی

گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے

پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم

ساحر لدھیانوی

میرؔ عمداً بھی کوئی مرتا ہے

جان ہے تو جہان ہے پیارے

میر تقی میر

جو لوگ موت کو ظالم قرار دیتے ہیں

خدا ملائے انہیں زندگی کے ماروں سے

نظیر صدیقی

مصیبت اور لمبی زندگانی

بزرگوں کی دعا نے مار ڈالا

مضطر خیرآبادی

یوں زندگی گزار رہا ہوں ترے بغیر

جیسے کوئی گناہ کئے جا رہا ہوں میں

جگر مراد آبادی

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے!

ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

خواجہ میر درد

اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

فانی بدایونی

ماں کی آغوش میں کل موت کی آغوش میں آج

ہم کو دنیا میں یہ دو وقت سہانے سے ملے

کیف بھوپالی

زندگی کیا ہے آج اسے اے دوست

سوچ لیں اور اداس ہو جائیں

فراق گورکھپوری

قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پاے کیوں

مرزا غالب

بہانے اور بھی ہوتے جو زندگی کے لیے

ہم ایک بار تری آرزو بھی کھو دیتے

مجروح سلطانپوری

ہے عجیب شہر کی زندگی نہ سفر رہا نہ قیام ہے

کہیں کاروبار سی دوپہر کہیں بد مزاج سی شام ہے

بشیر بدر

مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے

مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ

جگر مراد آبادی

عشق کو ایک عمر چاہئے اور

عمر کا کوئی اعتبار نہیں

جگر بریلوی

مانگی تھی ایک بار دعا ہم نے موت کی

شرمندہ آج تک ہیں میاں زندگی سے ہم

نامعلوم

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے