رقیب پر اشعار
کلاسیکی شاعری میں عشق
کے بیانیے میں جو چند بنیادی کردار ہیں ان میں سے ایک رقیب بھی ہے۔ رقیب معشوق کا ایک دوسرا چاہنے والا ہوتا ہے جو معشوق کے لئے ایک ہوس کارانہ جذبہ بھی رکھتا ہے اورمعشوق بھی اپنے سچے عاشق کو چھوڑ کر رقیب سے راہ ورسم رکھتا ہے ۔ معشوق کی رقیب سے یہ قربت ہی عاشق کیلئے دکھ اور پریشانی کا سب سے بڑا سبب بنتی ہے ۔
اس طرح زندگی نے دیا ہے ہمارا ساتھ
جیسے کوئی نباہ رہا ہو رقیب سے
-
موضوعات : زندگیاور 1 مزید
نہ میں سمجھا نہ آپ آئے کہیں سے
پسینہ پوچھیے اپنی جبیں سے
-
موضوعات : ضرب المثلاور 1 مزید
لے میرے تجربوں سے سبق اے مرے رقیب
دو چار سال عمر میں تجھ سے بڑا ہوں میں
رفیقوں سے رقیب اچھے جو جل کر نام لیتے ہیں
گلوں سے خار بہتر ہیں جو دامن تھام لیتے ہیں
جو کوئی آوے ہے نزدیک ہی بیٹھے ہے ترے
ہم کہاں تک ترے پہلو سے سرکتے جاویں
مجھ سے بگڑ گئے تو رقیبوں کی بن گئی
غیروں میں بٹ رہا ہے مرا اعتبار آج
-
موضوعات : بھروسہاور 1 مزید
تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا
ادھر آ رقیب میرے میں تجھے گلے لگا لوں
مرا عشق بے مزا تھا تری دشمنی سے پہلے
-
موضوعات : عشقاور 1 مزید
اس نقش پا کے سجدے نے کیا کیا کیا ذلیل
میں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا
رقیب قتل ہوا اس کی تیغ ابرو سے
حرام زادہ تھا اچھا ہوا حلال ہوا
جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار
اے کاش جانتا نہ ترے رہگزر کو میں
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا گلہ نہ ہوا
بیٹھے ہوئے رقیب ہیں دل بر کے آس پاس
کانٹوں کا ہے ہجوم گل تر کے آس پاس
غیر سے کھیلی ہے ہولی یار نے
ڈالے مجھ پر دیدۂ خوں بار رنگ
-
موضوعات : آنسواور 2 مزید
یاد آئیں اس کو دیکھ کے اپنی مصیبتیں
روئے ہم آج خوب لپٹ کر رقیب سے
اپنی زبان سے مجھے جو چاہے کہہ لیں آپ
بڑھ بڑھ کے بولنا نہیں اچھا رقیب کا
ہمیں نرگس کا دستہ غیر کے ہاتھوں سے کیوں بھیجا
جو آنکھیں ہی دکھانی تھیں دکھاتے اپنی نظروں سے
آپ ہی سے نہ جب رہا مطلب
پھر رقیبوں سے مجھ کو کیا مطلب
غصہ آتا ہے پیار آتا ہے
غیر کے گھر سے یار آتا ہے
کہتے ہو کہ ہم درد کسی کا نہیں سنتے
میں نے تو رقیبوں سے سنا اور ہی کچھ ہے
جس کا تجھ سا حبیب ہووے گا
کون اس کا رقیب ہووے گا
ہم اپنے عشق کی اب اور کیا شہادت دیں
ہمیں ہمارے رقیبوں نے معتبر جانا
وہ جسے سارے زمانے نے کہا میرا رقیب
میں نے اس کو ہم سفر جانا کہ تو اس کی بھی تھی
گو آپ نے جواب برا ہی دیا ولے
مجھ سے بیاں نہ کیجے عدو کے پیام کو
حال میرا بھی جائے عبرت ہے
اب سفارش رقیب کرتے ہیں
رقیب دونوں جہاں میں ذلیل کیوں ہوتا
کسی کے بیچ میں کمبخت اگر نہیں آتا
سامنے اس کے نہ کہتے مگر اب کہتے ہیں
لذت عشق گئی غیر کے مر جانے سے
یہ کہہ کے میرے سامنے ٹالا رقیب کو
مجھ سے کبھی کی جان نہ پہچان جائیے
صدمے اٹھائیں رشک کے کب تک جو ہو سو ہو
یا تو رقیب ہی نہیں یا آج ہم نہیں
کوئے جاناں میں نہ غیروں کی رسائی ہو جائے
اپنی جاگیر یہ یارب نہ پرائی ہو جائے
مت بخت خفتہ پر مرے ہنس اے رقیب تو
ہوگا ترے نصیب بھی یہ خواب دیکھنا
آغوش سیں سجن کے ہمن کوں کیا کنار
ماروں گا اس رقیب کوں چھڑیوں سے گود گود
بس ایک پیار نے سالم رکھا ہمیں یارو
رقیب مر گئے ہم میں شگاف کرتے ہوئے