Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سفر پر اشعار

سفر شاعری میں ایک عام

سفربھی ہے اورحرکت کا استعارہ بھی ۔ منزل کو پالینے کیلئے سفرہی بنیادی شرط ہے ۔ شاعروں نے سفرکی مشکلوں اوران کے نتیجےمیں حاصل ہونے والی خوشیوں کا الگ الگ ڈھنگ سے اظہارکیا ہے ۔ یہ شاعری زندگی کےمشکل لمحوں میں حوصلے کا ذریعہ بھی ہے۔

مجھے خبر تھی مرا انتظار گھر میں رہا

یہ حادثہ تھا کہ میں عمر بھر سفر میں رہا

ساقی فاروقی

زندگی یوں ہوئی بسر تنہا

قافلہ ساتھ اور سفر تنہا

گلزار

سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو

سبھی ہیں بھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو

ندا فاضلی

ہے کوئی جو بتائے شب کے مسافروں کو

کتنا سفر ہوا ہے کتنا سفر رہا ہے

شہریار

یہ بات یاد رکھیں گے تلاشنے والے

جو اس سفر پہ گئے لوٹ کر نہیں آئے

آشفتہ چنگیزی

گو آبلے ہیں پاؤں میں پھر بھی اے رہروو

منزل کی جستجو ہے تو جاری رہے سفر

نور قریشی

کس کی تلاش ہے ہمیں کس کے اثر میں ہیں

جب سے چلے ہیں گھر سے مسلسل سفر میں ہیں

آشفتہ چنگیزی

اپنی سی خاک اڑا کے بیٹھ رہے

اپنا سا قافلہ بناتے ہوئے

شاہین عباس

رستہ بھی ہمی لوگ تھے راہی بھی ہمیں تھے

اور اپنی مسافت کی گواہی بھی ہمیں تھے

نسیم صدیقی

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

مجروح سلطانپوری

ڈر ہم کو بھی لگتا ہے رستے کے سناٹے سے

لیکن ایک سفر پر اے دل اب جانا تو ہوگا

جاوید اختر

ابھی سے شکوۂ پست و بلند ہم سفرو

ابھی تو راہ بہت صاف ہے ابھی کیا ہے

رئیس امروہوی

سفر میں کوئی کسی کے لیے ٹھہرتا نہیں

نہ مڑ کے دیکھا کبھی ساحلوں کو دریا نے

فارغ بخاری

نہ رنج ہجرت تھا اور نہ شوق سفر تھا دل میں

سب اپنے اپنے گناہ کا بوجھ ڈھو رہے تھے

جمال احسانی

میں لوٹنے کے ارادے سے جا رہا ہوں مگر

سفر سفر ہے مرا انتظار مت کرنا

ساحل سحری نینیتالی

چلے تھے جس کی طرف وہ نشان ختم ہوا

سفر ادھورا رہا آسمان ختم ہوا

غلام مرتضی راہی

مسافرت کا ولولہ سیاحتوں کا مشغلہ

جو تم میں کچھ زیادہ ہے سفر کرو سفر کرو

اکبر حیدرآبادی

نہ منزلوں کو نہ ہم رہ گزر کو دیکھتے ہیں

عجب سفر ہے کہ بس ہم سفر کو دیکھتے ہیں

احمد فراز

اس سفر میں نیند ایسی کھو گئی

ہم نہ سوئے رات تھک کر سو گئی

راہی معصوم رضا

کبھی میری طلب کچے گھڑے پر پار اترتی ہے

کبھی محفوظ کشتی میں سفر کرنے سے ڈرتا ہوں

فرید پربتی

نہیں ہوتی ہے راہ عشق میں آسان منزل

سفر میں بھی تو صدیوں کی مسافت چاہئے ہے

فرحت ندیم ہمایوں

وہ لطف اٹھائے گا سفر کا

آپ اپنے میں جو سفر کرے گا

غمگین دہلوی

ایک سفر وہ ہے جس میں

پاؤں نہیں دل تھکتا ہے

احمد فراز

میں سفر میں ہوں مگر سمت سفر کوئی نہیں

کیا میں خود اپنا ہی نقش کف پا ہوں کیا ہوں

اختر سعید خان

ابھی سفر میں کوئی موڑ ہی نہیں آیا

نکل گیا ہے یہ چپ چاپ داستان سے کون

اختر شمار

سفر میں ایسے کئی مرحلے بھی آتے ہیں

ہر ایک موڑ پہ کچھ لوگ چھوٹ جاتے ہیں

عابد ادیب

راہ آساں دیکھ کر سب خوش تھے پھر میں نے کہا

سوچ لیجے ایک انداز نظر میرا بھی ہے

راجیندر منچندا بانی

رہ طلب میں کسے آرزوئے منزل ہے

شعور ہو تو سفر خود سفر کا حاصل ہے

غلام ربانی تاباں

کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل

کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا

احمد فراز

سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے

ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے

حیدر علی آتش

میں اپنی انگشت کاٹتا تھا کہ بیچ میں نیند آ نہ جائے

اگرچہ سب خواب کا سفر تھا مگر حقیقت میں آ بسا ہوں

عزم بہزاد

آئے ٹھہرے اور روانہ ہو گئے

زندگی کیا ہے، سفر کی بات ہے

حیدر علی جعفری

میری تقدیر میں منزل نہیں ہے

غبار کارواں ہے اور میں ہوں

نامعلوم

کبھی تمام تو کر بد گمانیوں کا سفر

کسی بہانے کسی روز آزما تو سہی

عقیل نعمانی

میں اپنے آپ میں گہرا اتر گیا شاید

مرے سفر سے الگ ہو گئی روانی مری

عباس تابش

طلسم خواب زلیخا و دام بردہ فروش

ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں

عزیز حامد مدنی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے